حکومت سندھ کراچی میں ’پلاسٹک کی سڑکیں‘ بنانے پر غور کر رہی ہے اور نگران وزیراعلیٰ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس منصوبے کے قابل عمل ہونے سے متعلق تفصیلات و سفارشات پیش کریں۔
چند ماہ قبل ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی نے 2.5 ٹن سے زیادہ ضائع شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ری سائیکل کر کے شہر قائد میں 730 فٹ لمبی اور 60 فٹ چوڑی پہلی پلاسٹک کی سڑک متعارف کروائی تھی۔
سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی جانب سے شہر میں روزانہ ہزاروں ٹن سالڈ ویسٹ اکٹھا کیا جاتا ہے، اس کے پاس روزانہ کی بنیاد پر پانچ ٹن کچن ویسٹ کو کھاد میں اور اتنی ہی ٹن پلاسٹک کے کچرے کو ری سائیکل کرنے کے لیے دو پلانٹ ہیں۔
پلاسٹک کی سڑک کی تعمیر سے متعلق معاملے پر محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا جہاں نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے محکمے کے ترقیاتی پورٹ فولیو کا جائزہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر ممالک نے پلاسٹک کی سڑکیں بنانا شروع کر دی ہیں، کراچی شہر میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
انہوں نے محکمے کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کا مکمل جائزہ لے اور ضروری کارروائی کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے۔
سیکریٹری ورکس نے وزیر اعلیٰ کو سندھ کے مختلف اضلاع میں کیے گئے انسپکشنز کی پیشرفت سے آگاہ کیا۔
انہوں نے وزیراعلیٰ کو ایک نیا انسپکشن پروفارما اور محکمے کی جانب سے تیار کردہ اس کے پیرامیٹرز بھی بھی دکھائے، وزیراعلیٰ نے محکمے کو ہدایت کی کہ وہ انسپکشن رپورٹ کے پروفارما میں نیا کالم شامل کرے تاکہ اسکیم/پروجیکٹ پر نظرثانی کی وجوہات اور تفصیلات کی عکاسی کی جاسکے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ ورکس کو ہدایت کی کہ وہ انسپکشن پروفارما میں پروجیکٹ پر کام کرنے والے ٹھیکیدار اور افسران کی کارکردگی کے بارے میں بھی کالم شامل کرے۔
انہوں نے محکمہ ورکس کو ہدایت کی کہ وہ بدعنوان اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے ناقص کام کا باعث بننے والے افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کرے۔
انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ غیر معیاری کام کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے ہدایت کی کہ سرکاری گاڑیوں کی لاگ بک کی مناسب دیکھ بھال کی جائے، انہوں نے کہا کہ روڈ سیفٹی ریسرچ پروگرام شروع کیے جائیں۔
وزیر اعلیٰ نے سیکریٹری ورکس کو یہ بھی ہدایت کی کہ ان منصوبوں کے سوا جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ موڈ پر چل رہے ہیں، مختلف صوبائی شاہراہوں پر جمع ہونے والے تمام ٹیکسز کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے۔