اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا

یہ کاتک کا مہینہ ہے جو گلابی جاڑے کا آ غاز ہو تا ہے اب کے گرمی کا موسم دیر تک رکا رہا لیکن اب موسم معتدل ہے یہی موسم پت جھڑ کا بھی ہے اس موسم کی ہوا درختوں کے زرد پتے گرانے پر مامور ہوتی ہے ، اس لئے کھیت کھلیان اور درختوں سے گھری ہوئی شاہراہیں زرد پتوں سے بھر جاتی ہیں، خزاں کی منہ زور ہوائیں پھولوں کو بھی پتی پتی کر کے شاخوں سے گرا دیتی ہیں ، بہت سے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ میں بھی پت جھڑ کی رت کی اپنی ایک الگ سے بہار ہوتی ہے اس لئے خزاں کے آغاز میں یہاں کے سکول کالجز میں ہفتہ بھر کے لئے ” فال بریک “ ( پت جھڑ کی چھٹیاں) ہو جا تی ہیں، یہاں کے باسی اس رت کا انتظار کرتے ہیں اور اسے تہوار کی طرح مناتے ہوئے چھتنار درختوں کے پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں،یہ ایک بہت ہی دلچسپ تجربہ ہو تا ہے اور یہ لوگ اسے ” رنگ بدلتے پتوں کی سیر“ کا نام دیتے ہیں، بہت سے علاقوں میں یہ ر±ت ذرا ذرا سے فرق سے شروع ہو تی ہے مجھے یاد ہے کہ 1999ءمیں کم و بیش ربع صدی پہلے جب میں پہلی بار امریکہ آیا تھا تو دوست ِ مہرباں عتیق صدیقی کے پاس کیپ کاڈ کے جزیرے گیا تھا وہ ستمبر کا مہینہ تھا تب میں نے کیپ کاڈ کے درختوں کے پتوں کے رنگ بدلنے کا دل کو موہ لینے والا حیران کن منظر دیکھا تھا وہیں پر میں نے کیپ کاڈ کے حوالے سے ایک نظم بھی لکھی تھی جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا کہ
 رنگ پتے بدلنے لگتے ہیں
 جب ستمبر کا مینہ برستا ہے
لیکن کولو راڈو کی ریاست کے شہر ڈینور میں ’ فال سیزن ‘ اکتوبر کے وسط سے یعنی کاتک کے مہینے میں شروع ہوتا ہے، اس لئے یہاں تعلیمی اداروں میں فال بریک بھی وسط ِ اکتوبر سے شروع ہو تا ہے پھر یہاں کے باسی اپنی فیملیز کے ساتھ پہاڑوں اور میدانوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ فطرت کے قریب تر ہو کر کھلی فضاو¿ں میں اونچے گھنے اور لانبے درختوں کے رنگ بدلتے پتوں کے خیرہ کر دینے والے مناظر دیکھ سکیں، اب کے میں بھی برخوردارافراز علی سیّد اور معروف افسانہ و ناول نگار داو¿د حسین عابد کی فیملیز کے ساتھ ڈینور سے پہاڑوں کی اور کوئی ڈھائی تین گھنٹے کی دوری
 پرواقع ’Es Tes ‘ پارک نامی قصبہ جا پہنچا، یوں تو یہ سارا راستہ چپ کرا دینے والے حیران کن مناظر سے بھرا ہوا ہے ، نشیب و فراز والی گھومتی پھرتی خوبصورت سڑک پر بے پناہ مگر ترتیب سے رواں دواں ٹریفک کے سیلاب میں ہم بھی بہے جا رہے تھے، مجھے یہ بھی خوشی تھی کہ بر خوردار افراز محتاط ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے بارے میں ایک عمدہ گائیڈ کی طرح پوری تفصیل سے معلومات بہم پہنچا رہا تھا، بطور خاص وہ ٹریفک سسٹم کی بات کر رہا تھا کہ کس طرح ممکنہ حد تک دور دراز کے علاقوں تک جانے والی ان سڑکوں پر انسانی جان کی حفاظت کے لئے انتظامیہ نے قدم قدم پر جن ہدایات کا اہتمام کیا ہوا ہے ان پر سفر کرنے والے ان ہدایات سے سر مو انحراف نہیں کرتے، کوئی اپنی لین سے باہر نہیں نکلتا، بھلے سے ساتھ والی لین خالی پڑی ہو مگر جہاں اوور ٹیک نہیں کرنا تو بس نہیں کر نا، پھر افراز نے اپنی گاڑی کے کئی حیران کن فیچرز سے بھی آ گاہ کیا ایک یہ بھی تھا کہ اگر کہیں گاڑی لین سے نکلتی ہے تو اس کا سٹیئرنگ قدرے سخت ہو کے خودکار نظام کے تحت دائیں طرف مڑنے لگتا ہے جس سے ڈرائیور الرٹ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر غلطی سے یا اونگھ آنے کی صورت میں سٹیئرنگ پر گرفت ڈھیلی پڑ جائے اور گاڑی سڑک کے کنارے کی طرف مڑنے لگے تو ایک بھاری آوازکے ساتھ گاڑی تھرتھرانے لگتی ہے کیونکہ سڑک کے کنارے غیر محسوس طور پر کھردرے اور بھربھرے سے بنائے گئے ہیں ’اِس ٹِس پارک ‘ تک پہنچتے پہنچتے ظہر کا وقت ہوگیا تھا، پارک کی سیر سے پہلے نماز ظہر ادا گئی اور پھر اس جنت نظیر علاقے
 کی رعنائیوں نے اپنی گرفت میں لے لیا،سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے اس تفریحی مقام پر ا مڈ آئی تھی، پہاڑی علاقہ کے اونچے لانبے اور خوبصورت درختوں کے کچھ دن پہلے تک کے سبز پتے اب خزاں کے رنگوں میں رنگے ہو ئے تھے ،درختوں کے زیادہ تر پتوں کے رنگ ہلکے اور گہرے نارنجی، بنفشی، چمپئی ،سرخ، ارغوانی اور سنہرے ہو چکے تھے، عجیب منظر تھا ہر درخت اپنی اور کھینچتا ہوا یہی کہہ رہا تھا کہ بس یہیں رک جاو¿ ( کرشمہ دامن ِ دل می کشد کہ جا اینجا است ) ان درختوں کے ساتھ ساتھ ہی بہتا ہو ایسا شفاف پانی کہ سوئی گراو¿ تو صاف دکھائی دے، اتنی بھیڑ اتنے لوگ بچے بڑے خواتین بزرگ سب کھا پی رہے تھے مگر پانی میں یا کہیں راستوں پر مجال ہے کہ کوئی خالی بوتل، ڈبہ، کین حتیٰ کہ نیپکن یا ٹشو پیپر کا کوئی چھوٹا ساٹکراکہیں نظر آتا ہو، ذرا ذرا فاصلہ پر پڑے ہوئے بنچوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ان ہوشربا مناظر میں کھوئے ہوئے تھے۔ پت جھڑ کی رومانی رت کا بھیدوں بھرا دن اس پارک میں موجود ہزاروں سیاحوں کو اپنی گود میں بھر کر کہانیاں سنا تا رہا، دھوپ ڈھلنے پر قدرے خنکی کا احساس ہوا تو نہ چاہتے ہوئے بھی پارکنگ کی طرف چلے آئے ،ابھی چند منٹ ہی چلے ہوں گے کہ اچانک افراز نے گاڑی کی سپیڈ کم کی اور ایک بغلی سڑک پر مڑ گیا جہاں جھیل کے کنارے بارہ سنگھوں کا ایک بڑا غول نظر آیا، سینکڑوں کی تعداد میں سیاح گاڑیوں سے اتر کر اس دلفریب منظر کو اپنے سیل فون کیمروں میں محفوظ کر رہے تھے کسی نے انہیں چھیڑا نہ ہی وہ اپنے غول سے باہرنکلے ایک بارہ سنگھا آگے تھا باقی ترتیب سے ان کے پیچھے چلتے جا رہے تھے اور آخر میں ایک بہت بڑے سینگھوں والا بارہ سنگھا خراماں خراماں چلا آ رہا تھا، گویا وہی ان کی حفاظت کر رہا تھا،سڑکوں،پارکوں، درختوں ،پتوں،پانیوں اور انسانوں سے لے کر بے زبان جانوروں تک، سب کو ایک ضابطہ اور ترتیب میں دیکھ کر بے اختیار اپنے شہر اور تفریحی مقامات یاد آئے توجانے کیوں آنکھوں میں دھواں سا بھرنے لگا اور منیر نیازی کا شعر ہم سفر ہو گیا۔
 اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
 یہ تماشا تھا یا کوئی خواب دیوانے کا تھا