تربوز فلسطینیوں کی ایک طاقتور علامت ہے۔ لیکن یہ تازگی بخش پھل فلسطینیوں کی یکجہتی کا نشان کیسے بن گیا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
تربوز کا فلسطینی علامت کے طور پر استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ علامت پہلی بار 1967 میں اس چھ روزہ جنگ کے بعد ابھری، جب اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کیا اور مشرقی یروشلم کا الحاق کرلیا۔
اس وقت، اسرائیلی حکومت نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی پرچم کی عوامی نمائش مجرمانہ جرم قرار دی تھی۔
پابندی سے بچنے کے لیے فلسطینیوں نے تربوز کا استعمال شروع کر دیا، کیونکہ کٹے ہوئے تربوز میں وہی رنگ شامل ہیں جو فلسطینی پرچم میں ہوتے ہیں ، یعنی ، سرخ، سبز، سفید اور سیاہ۔
اسرائیلی حکومت نے صرف جھنڈے کے خلاف ہی کارروائی نہیں کی۔
آرٹسٹ سلیمان منصور نے 2021 میں دی نیشنل کو بتایا کہ اسرائیلی حکام نے 1980 میں رام اللہ کی 79 گیلریوں میں ایک نمائش بند کر دی تھی جس میں نبیل عنانی اور عصام بدرل سمیت ان کے کام اور دیگر کو دکھایا گیا تھا۔ ’انہوں نے ہمیں کہا کہ صڑف فلسطینی پرچم پینٹ کرنا ہی منع نہیں بلکہ رنگ بھی منع ہیں‘۔ جس پر عصام نے کہا، ’اگر میں سرخ، سبز، سیاہ اور سفید کا پھول بناؤں؟‘ جس پر افسر نے غصے سے جواب دیا، ’یہ ضبط کر لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر آپ تربوز کو پینٹ کرتے ہیں، تو اسے ضبط کر لیا جائے گا‘۔
اسرائیل نے اوسلو معاہدے کے ایک حصے کے طور پر 1993 میں فلسطینی پرچم پر سے پابندی اٹھالی تھی، جسے اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی طرف سے باہمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور یہ دہائیوں سے جاری اسرائیل-فلسطین تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرنے والے پہلے رسمی معاہدے تھے۔ پرچم کو فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کے طور پر قبول کیا گیا، جو غزہ اور مغربی کنارے کا انتظام کرے گی۔
معاہدوں کے تناظر میں، نیو یارک ٹائمز نے پرچم پر پابندی کے دوران تربوز کے کردار کو مزاحمتی علامت کے طور پر بیان کیا۔
ٹائمز کے صحافی جان کفنر نے لکھا، ’غزہ کی پٹی میں، جہاں نوجوانوں کو ایک بار کٹے ہوئے تربوز رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا فوجی ایک بار ممنوعہ پرچم لہراتے ہوئے جلوس کے سامنے کھڑے ہوں گے۔