عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

پشاور صدر کی شام کبھی بہت بھیدوں بھری ہوا کرتی تھی لگتا تھا کہ پورا پشاور ہی صدر کے بازاروں ،شاہراو¿ں اور ریستورانوں میں امڈ آتا ، فوارہ چوک سے جالندھر سویٹ ہاو¿س سے ہوتے ہوئے جناح سٹریٹ ( گورا بازار ) میں اور وہاں سے نکل کر کیپٹل سینما تک منچلے دوستوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں سرِ شام سے رات گئے تک گھوما کرتیں، پھر پشاور صدر کے ارباب روڈ سے صدر روڈ کے مغربی کونے تک کے چند ہی گز کے ایل شکل کے بازار میں کئی ایک ریستوران اور کیفیاں تھیں اس کے باوجود کسی کیفے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی یہ سلسلہ کیفی گارڈینیا اور علیگ کیفی سے شروع ہوتا ،جو آمنے سامنے تھیں،خیبر کیفی،سلور سٹار اور گولڈن سٹار تک جا پہنچتا، اس سڑک پر دکانوں کے آگے لگے ریلنگ پر بیٹھنے کےلئے بھی انتظار کرنا پڑتا ،عجب بے فکری کا زمانہ تھا ایک دن یوں ہی گھوم رہے تھے کہ مرحوم پروفیسر اشرف علی نے سب کو روک کر اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں کہا ” یار ، ہم میں سے کسی کا بھی کوئی کام نہیں کہ بے کار گھومنے کی بجائے، سب مل کر وہی کر لیں“ پھر ہم نے ایک کام ڈھونڈ لیا اور کچھ دن اسی سے جی بہلاتے رہے، گورا بازار میں محاورتاََ نہیں واقعی کھوئے سے کھوا چھلتا تھا ،اس لئے ہم بازار کے جالندھر سویٹ ہاو¿س والی سمت سے زمیں پر کوئی خالی ڈبہ رکھ دیتے اور اسے ہلکی سی ٹھوکر لگا کر چھوڑ دیتے پھر جب ہم کیپٹل سینما سے مڑ کر واپس آتے تو اس ڈبہ کو تلاش کرتے تو اتنی دیر میں وہ اس ہجوم کی غیر ارادی ٹھوکریںکھاتا ہوا بازار کے دوسرے سرے پر واقع بک سٹال کے پاس ملتا،یہ ایک دلچسپ شغل تھا، جب شام کے سائے بڑھنے لگتے تو ہم چائے پینے کسی کیفی کا رخ کرتے ،سلور سٹار ہماری پہلی اور خیبر کیفی دوسری ترجیح ہوتی، سلور سٹار میں زیادہ تر ریڈیو ،ٹی وی سے جڑے ہوئے فنکار اور شعراءو ادباءبیٹھتے تھے اور خالی میز کا انتظار کرنے، ہم گھنٹوں ریلنگ پر بیٹھ کر خوش گپیاں لگاتے، خیبر کیفی پروفیسر طہ ٰ خان اور ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر قاضی سرور اور ان کے حلقہ ¿ احباب کا مستقل ٹھکانہ تھا لیکن شعر و ادب سے جڑے ہوئے زیادہ لوگ سلور سٹار میں ہوتے،ان میں معروف شاعر ،ادیب اور صحافی
 مسعود انور شفقی بھی ہوتے جو باقی زعما کی طرح بہت ریگولر تو نہ تھے بلکہ ہفتہ میں تین چار بار نظر آ جاتے،وہ روزنامہ انجام کے ایڈیٹر تھے جو بعد میں روزنامہ مشرق میںڈھل گیا تھا، باقی ادبی زعما کی نسبت مجھے وہ قدرے کم آمیز لگتے تھے اس لئے ہم بھی ان سے ذرا فاصلہ پر رہے لیکن جب پہلی بار شعبہ بازار پشاور کے ایک کونے میں واقع انجام اخبار کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی تو پھر ان کی شگفتہ طبیعت نے ہمیں ان کا بے تکلف دوست بنا دیا، اسّی کے دہائی کے اوائل میں جب میں ” گل بہار “ شفٹ ہوا تو انہیں اکثر شام کو گل بہار کی سڑک پر واک کرتے دیکھتا تو ان کے ساتھ ہی ہو لیتا ، انہیں’ شوگر‘ کا مرض لاحق ہو چکا تھا،ایک دو بار تو ہسپتال میں ایڈمٹ بھی رہے‘ فارغ بخاری کے فرزند سید قمر عباس کی دعوت ولیمہ میونسپل کارپوریشن میں ہوئی تھی اس دن بہت بارش ہو رہی تھی تو ہم سب شین شوکت مرحوم کے دفتر (میونسپل لائبریری) میں کھانا کھانے اکٹھے ہوئے تھے ،مسعود انور شفقی بھی آئے تھے جو کچھ ہی دن پہلے ہسپتال سے لوٹے تھے اوربیماری کے باعث بہت مضمحل لگ رہے تھے سب نے ان کی بیمار پرسی کی اور پوچھا کیا ہوا تھا،تو ہنس کر ہندکو میں کہنے لگے” بس یار ہک گنڈیری بلا بنڑ گئی اَی“ ( کیا بتاو¿ں ایک گنڈیری چوسنا ہی عذاب بن گیا تھا ) عجب باغ و بہار شخصیت تھے ان کا ایک ہندکو ڈرامہ سیریل ” کاری گر “ پی ٹی وی میں بہت مقبول ہوا تھا،ان کا شعری مجموعہ ’ رات اور الو“ بھی بہت پذیرائی پا چکا تھا کالم بھی لکھتے رہے اور ریڈیو پاکستان کےلئے بہت لکھا مجھے یہ سب اس لئے بھی یادآیا کہ گزشتہ کل ڈینور میں مقیم برخوردار حمزہ سہیل کے گھر عشائیہ پر پشاور کے حوالے سے گفتگو
 ہورہی تھی ،سب جانتے ہیں کہ جہاں پشاوری اکٹھے ہوتے ہیں گفتگوپشاورکے سنہرے دور اور ادب و ثقافت کے حوالے سے ہی ہوتی ہے،مسعود انور شفقی اور ان کے بھائی معروف و مقبول پروفیسر محفوظ جان دونوں سے حمزہ سہیل کا تعلق پوتے اور نواسے کا ہے یوں بھی گفتگو زیادہ تر ستر اور اسی کے دہائی کے ادبی منظر نامہ پر ہوتی رہی جس میں مسعود انور شفقی کے ساتھ ساتھ پشاور کے امی شاعر ساحر مصطفائی کا بھی ذکر ہوتا رہا اور ان کے کئی ایک عمدہ اشعار پڑھے گئے،محفل میں برخوردار افراز علی سید اور افسانہ و ناول نگار داو¿د کاکڑ بھی اور ان کے ادب دوست بھائی عامر حسین کاکڑ بھی تھے جو حمزہ سہیل کے سسر ہیں، اس لئے محفل خوب جمی،جس وقت مسعود انور شفقی اور ان کے ہم عصر زعماکے حوالے سے بات ہو رہی تھی تو مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اپنے دور میں بہت مقبول شاعر ادیب جب بچھڑ جاتے ہیں تو بہت جلد انہیں قصہّ پارینہ سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے، ایک طرف تو قلم قبیلہ بھی بھولے سے ان کا ذکر نہیں کرتا تو دوسری طرف ان کے خانوادہ میں بھی کوئی ایک فرد ایسا نہیں ہوتا جو کبھی کبھارہی سہی ان کی یاد میں کسی نشست کا اہتمام کر لے یا پھر ان کے افکار و اشعار کی اشاعت کاانتظام کر لے،کیونکہ بہت سا غیر مطبوعہ کام اور کلام ہر شاعر ادیب کے گھر میں پڑا ہو تا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ضائع ہو جاتا ہے اور اب تو کئی ایک ادبی ویب سائیٹ ، انٹر نیٹ پر موجود ہیں وہاں فیڈ کیا جا سکتا ہے میں نے انہی کالموں میں خاطر غزنوی کی کئی غیر مطبوعہ کتب کا ذکر کیا ہے جو ان کے بچھڑنے کے وقت بالکل اشاعت کےلئے تیا ر تھیں مگرآج پندرہ سال کے بھی سامنے نہیں آ سکیں، اسی طرح مسعود انور شفقی کا بھی بہت کام تھا ، شعر میں بھی اور نثر میں بھی بہت کچھ لکھا اور مجھے معلوم ہے کہ انٹر نیٹ بھی ان کے نام ا ور کام سے واقف نہیں ہے ،بچھڑنے والے کا ہم پر بہت قرض ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہم اپنی ترجیحات میں رفتگاں کے لئے ذرا بھر گنجائش نہیں رکھتے منیر نیازی نے سچ کہا ہے کہ 
 آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
 عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو