وقت مٹھی میں پکڑی ریت کی طرح لمحہ لمحہ گزرتا جارہا ہے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دن اور رات ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے مہ و سال میںڈھل جاتے ہیں اسد اللہ خان غالب کہتے ہیں۔
رَو میں ہے رخش ِ عمر ، کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
گزرتا ہو وقت کچھ تلخ و شیریں یادیں ،کچھ کہانیاں اورکچھ نشانیاں چھوڑ جاتا ہے جو پھر دیر تک افسردہ رکھتی ہیں اور کوئی کوئی لمحہ تو اتنا جان لیوا ہوتا ہے کہ گزرتا ہی نہیں مانو رک سا جاتا ہے اس لمحہ کی گرفت سے نکلناجان جوکھوں کا کام ہوتا ہے ،گزشتہ کچھ دنوں سے عالمی سطح پر مسلسل کچھ ایسی خبریں مل رہی ہیں جنہیں دیکھ اورسن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ،پھر ان خبروںمیں قلم قبیلہ سے بھی کچھ دل دکھانے والی خبریں شامل ہو گئیں اکتوبر کا مہینہ بظاہرتو اب گزر گیا مگربہت گہرے گھاو¿ دے گیا ہے ، پشاور کے ایک بہت عمدہ مصور تسنیم شہزادان دنوں نیویارک میں مقیم ہیں جب پشاور میں تھے تو پشاور صدر میں انہوں نے ” تسنیم آرٹ گیلری“ قائم کی تھی انفرادی سطح پر تو ہر مصور کے گھر یا حجرے میں اپنا ایک نگار خانہ ہو تا ہے لیکن شاید پشاور میں یہ پہلی نجی آرٹ گیلری تھی جو 90 ءکی دہائی کے وسط میں ان کے امریکہ شفٹ ہوجانے کے بعد ختم ہو گئی تھی،لیکن وہ ہر سال دو بعد پشاور آتے ہیں کچھ دن پہلے ان کووالدہ کے بچھڑنے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، اس کے فوراً بعد احمد فراز کے بہت قریبی ساتھی،بہت عمدہ شاعر اور بہت محبت کرنے والے دوست حلیم قریشی کی شریک حیات ان کو اکیلا کر گئیں، مرحومہ خود بھی بہت نفیس اور محبت کرنےوالی خاتون تھی‘ دو ایک برس پہلے حلیم قریشی نے ٹیکسلا میں واقع اپنے مالٹوں کے باغ میں بلایا تھا، ان کی اور میری فیملی نے وہ پورا دن شام ڈھلے تک پک نک کی طرح گزارا تھا اس دن بھابھی نے وہیں کچن میں ایک پرتکلف لنچ تیار کیاتھا، مگر بہت بارمل بیٹھے کے پروگرام بنانے کے باوجود ہم اسلام آباد نہیں جا سکے اور یوں وہی ملاقات آخری ثابت ہوئی‘ دوری راہ دیوار بنی ہوئی ہے اس لئے میں نے اور رفعت علی سیّد نے ایک دوسرے کو پرسا دیا اور دیر تک نم آلود آنکھوں سے ان کی دھیمے لہجے میں گفتگو کو یاد کرتے رہے پھر فون پر حلیم قریشی کا دکھ بانٹنے کی کوشش بھی کی، حلقہ ارباب ذوق پشاور میں کچھ احباب بہت تواتر سے آتے ہیں اور کچھ گاہے گاہے شریک ہوتے ہیںتاہم یوں بھی ہوتا ہے کہ مسلسل حاضر رہنے والے جب کسی بھی وجہ سے دیر تک نہیں آ پاتے تو پھر گویا راستہ ہی بھول جاتے ہیں ایسے ہی ایک ہنستے مسکراتے دوست روشن خٹک بھی تھے‘ پہلے پہل ان کے کالم اور تجزیے نظر سے گزرتے رہے مگر ملاقات نہیں ہو ئی تھی ایک دن پشاور کے پنج ستاری ہوٹل میں کسی تقریب میں میرے پاس آئے اپنا تعارف کرایا تو میں فوراً پہچان گیا اور ان کی تحریروں کی تعریف کی اور ساتھ ہی انہیں حلقہ میں آنے کی دعوت دی ‘اگلے ہی ہفتے آئے اور پھر کئی سال تک مستقل رکن رہے،انہوں نے اس دوران حلقہ میں افسانہ بھی پیش کیا، مجھ سمیت کچھ دوستوں کے عمدہ خاکے بھی لکھے، ان کی تدریسی مصروفیات جب بڑھ گئیں چونکہ وہ حیات آباد جاتے تھے اس لئے حلقہ کے اجلاس میں شریک نہ ہو پاتے‘ اپنے اسکول میں ایک بار مجھے چیف گیسٹ کے طور پر دعوت دی تو کہنے لگے میں آپ کو لینے خود آو¿ں گا‘ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ روشن خٹک کے پاس اب اپنی گاڑی ہے میں نے کہا اب تو سہولت سے اجلاس میں آ سکتے ہو ‘مجھے ٹھیک سے یاد نہیں شاید کچھ ہفتے آتے بھی رہے‘ ہمارے اجلاس ان دنوں پریس کلب میں ہوتے تھے مگر پھر ہم شہر آگئے تو ان کا آنا پھر سے معطل ہو گیا، البتہ ان دنوں کالم رائٹرز کے اکٹھ کا ڈول سلیم آفاقی نے ڈالاتو سینہ چا کان ِ چمن سے پھر سینہ چاک آن ملے، تب روشن خٹک سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا اور بیشتر اجلاسوں کے بعد اصرار کر کے مجھے گھر چھوڑنے آتے ‘راستے میں خوب گپ شپ چلتی، ایک دن نشتر ہال کی کسی تقریب سے واپسی پر مجھے انہوں نے اپنی بیماری کا بتایا اور کہا کہ بہت دنوں بعد بستر سے اٹھا ہوں،اس کے بعد ملاقاتیں کم کم ہی ہوئیں دو ایک مرتبہ فون پر بات ہوئی ابھی چند روز پیشتر سوشل میڈیا پر ان کی ہنستی مسکراتی تصویر دیکھتے ہی میرے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آنے والی تھی کہ کیپشن پرنظر پڑی جو ان کے بچھڑنے کے حوالے سے تھا،دل سے اک ہوک اٹھی اور دیار ِ غیر میںسر رکھ کر رونے کے لئے ابھی کاندھا تلاش کر ہی رہا تھا کہ ہمدم دیرینہ ایوارڈ یافتہ شاعر،ادیب،محقق اور براڈ کاسٹر لائق زادہ لائق کی رحلت کی خبر نے ادھ موا کر دیا، لائق زادہ لائق سے پہلی ملاقات پشتو کی 80 ءکی دہائی کی ایک فعال تنظیم ” باگرام“ کی، پشاور صدر میںہونے والی اس نشست میں ہوئی تھی جس میں ان کی غزل پر بات ہو نا تھی، جانے میری گفتگو میں انہیں ایسا کیا بھایا کی اس دن کی دوستی ان کے دم ِآخر تک قائم رہی ، ان سے آخری ملاقات کچھ ماہ پہلے غالباً جمشید علی خان کے ٹی وی شو میں ہوئی تھی مگر کچھ دن پہلے تک ہر صبح ایک تازہ شعر کے ساتھ ان سے ملاقات جاری رہی ‘اکتوبر کا اتنے دکھ دے کر جی نہیں بھرا تھا کہ جاتے جاتے دوست ِ عزیز معروف صحافی اور پشاور سٹیمپ سوسائٹی کے چئیر مین نواز صدیقی کے بچھڑنے کی خبر عزیز دوست محمد طارق خٹک نے دی نوے کی دہائی میں ان سے مسلسل ملاقاتیں رہیں،تب میں کالم کے ساتھ ساتھ ادبی صفحہ ” ادب نامہ“ ترتیب دیتا تھا اور یہ نیوز ایڈیٹر تھے میں نے انہیں کم کم ہی بیٹھے دیکھا، ہمہ وقت قلم ہاتھ میں لئے کبھی ایک ڈیسک پر خبروں کی نوک پلک سنوارتے کبھی دوسرے ڈیسک پر جا کر زبان و بیان درست کرتے، یا پھر میرے پاس آکر پوچھتے ” سب ٹھیک اے نا “ میرا پیج میکر سمارٹ مگر قدرے لا ابالی تھا میں کچھ کہتا تو پیار سے اس کے کان پکڑ کر کہتے ” ٹھیک ہو جا، شاہ جی کو شکایت کا موقع مت دو“ محمد طارق خٹک اکثر ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں میں نے کچھ دن پہلے ہی انہیں کہا پاکستان آکران سے ملنے جائیں گے لیکن معلوم نہیں انہیں جانے کی جلدی تھی یا مجھے حسب معمول دیر ہو گئی ‘اس لئے اب میں گزرے ہوئے اکتوبر سے غالب کی زبان میں بجز اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
اب میں ہوں او ر ماتم ِ یک شہر ِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ‘تمثال دار تھا