اب کے پشاور سے مجھے نکلے ہوئے کم و بیش چھے ماہ ہونے کو آئے ہیں اس لئے بہت سے دوستوں کی طرف سے مسلسل پیار بھرے پیغامات بھی مل رہے ہیں اور کچھ دوست فون پر بھی یاد دلاتے رہتے ہیں کہ سفر طویل ہو گیا ہے پشاور کے دوستوں کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں کے کچھ دوست سوشل میڈیا کی وساطت سے بھی واپسی کا پوچھتے رہتے ہیں، ابھی چند دن پہلے مجھے ترقی پسند دوست عزیز اور ہفت روزہ ”ہم شہری“ لاہور کے مدیر ارشاد امین کا فون آیا تھا، ارشاد امین سے بہت کم فون پر بات ہوتی ہے، وٹس ایپ پر البتہ بات چیت کم و بیش روزانہ ہوتی ہے، ان کی بہت محبت کہ نہ صرف روزنامہ آج میں شائع ہونے والے میرے کالم ”ہم شہری“ کی ویب سائٹ پر لگاتے رہتے ہیں بلکہ ان کے حوالے سے گاہے گاہے اپنے تبصرے بھی مجھ تک پہنچاتے ہیں تاہم فون پر بہت کم رابطہ ہوتا ہے انہوں نے بھی سب سے پہلے یہی پوچھا کہ ”آپ کا کب تک واپسی کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ بشرط زندگی نومبر میں آ جاؤں گا تو کہنے لگے تو پھر دسمبر میں اپنی مرضی کی کوئی تاریخ بتادیں تا کہ آپ کو لاہور بلا کر ایک نشست کا ڈول ڈالاجائے،میں نے کہہ دیا پاکستان پہنچ کر طے کر لیں گے،پھر کہنے لگے،اس وقت میں چند دوستوں کے ساتھ لاہور پریس کلب میں بیٹھا ہوا ہوں اور آپ کا ذکر یوں چلا کہ میرے دوست(نام بھول گیا ہوں)ابھی ہمیں ایک غزل گا کر سنا رہے تھے جومحترم خاطر غزنوی کی ہے،پہلے ذرا آپ سن لیں،ارشاد امین کے دوست کی آواز بھی اچھی تھی اور موصوف کو غزل گائیکی پر بھی عبور تھا، غزل کا مطلع تھا۔
گو ذر ا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
پھر کہنے لگے یہ غزل سن کر مجھے مرحوم خاطر غزنوی کی محبتیں یا د آگئیں، ملتان اور انڈیا کی محفلیں یاد آئیں، ساتھ ہی تمہارا ذکربھی کیا کہ ہم انڈیا اکٹھے گئے تھے اور تمہارے شعر و کالم کی بات کی تو دوستوں نے کہا کہ ملاقات کی سبیل نکالی جائے،سو یہی طے پایا کہ آپ کی واپسی کے بعد دسمبر میں یہیں لاہور پریس کلب میں یاروں کا اکٹھ ہوگا‘ میں نے بشرط صحت و زندگی حامی بھر دی، فون بند ہو گیا تو مجھے بھی انڈیا کا وزٹ یاد آیا یہ دو ہزار پانچ کی بات ہے جب، سعادت سعید کی سربراہی میں بنے بھائی(سجاد ظہیر) کے صد سالہ جشن ولادت کے مشاعروں،مذاکروں اور ریلیوں میں پاکستان کے ترقی پسند شعراء کا وفد انڈیا گیا تھا،اس وفد میں پشاور سے خاطر غزنوی،سجاد بابر کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا، لیکن آخر میں سجاد بابر نے اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے معذرت کر لی تو میں نے خاطر غزنوی اور سعادت سعید سے درخواست کی کہ اس طرح دوسروں شہروں کی نسبت پشاور کی نمائندگی کم ہو جائے گی اس لئے نذیر تبسم کو بھی شامل کر لیا جائے، سعادت سعید نے ارشاد امین کا فون نمبر دیا کہ ان سے رابطہ کرو یہی سارے معاملات دیکھ رہے ہیں،میری پہلے ان سے ملاقات نہ تھی لیکن اتنی محبت سے پیش آئے کہ تب سے ہفتہ بھر پہلے فون پر گفتگو اور لاہور آنے کی دعوت تک ہماری دوستی قائم رہی، فون بند ہو گیا مگر یادوں کا دریچہ کھل گیا دہلی میں ایک دن جب ہم شا پنگ کے لئے بازار میں تھے تو اچانک ان کے فون کی گھنٹی بجی،رک کر بات کی اور پھر مجھے کہنے لگے کہ بیٹی کی پاکستان سے کال تھی‘ مجھے تو زیادہ سمجھ نہیں ہے،ان کے لئے کچھ اچھا سا گفٹ خریدنا ہے‘ آپ ذرا مدد کریں،پھر ہم نے ان کے لئے دو بہت خوبصورت بنارسی لینن کے سوٹ اور ایک شال خریدی تھی،واپس پاکستان جا کر مجھے تب بھی فون پر بتایا تھا کہ بٹیا کو گفٹ بہت پسند آیا اس لئے سوچا آپ کا شکریہ ادا کر دوں، انہوں نے اس ادبی دورے میں سب دوستوں کا بہت خیال رکھا وہ ایک مصروف دورہ تھا جس میں بنے بھائی کے صد سالہ جشن ولادت کے پروگراموں میں شرکت لئے دہلی،الہ آباد اور لکھنؤتک ہم گئے، بہت سے ترقی پسند شاعروں ادیبوں سے ملاقاتیں ہوئیں،کیفی اعظمی کی بیٹی اور معروف فلم ایکٹریس شبانہ اعظمی کے ساتھ نہ صرف ریلی میں شریک ہوئے بلکہ انہوں نے وفد کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام بھی کیا،اسی طرح لکھنؤ کے چھوٹے امام باڑے میں منعقدہ ایک مشاعرہ میں پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف فلم ا داکار اے کے ہینگل (جن کا فلم شعلے کا ڈائیلاگ ”اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی“ ابھی تک مشہور ہے )سے بھی ملاقات ہوئی، بھیگی پلکوں سے پشاور کو یاد کیا، ارشاد امین نے وفد کے سب دوستوں کا خیال رکھا لیکن زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزارا، شمیتا دیدی کے ساتھ دہلی کے کناٹ پلیس کی سیر کے دوران بھی وہ ہمارے ساتھ تھے بہت سی ذمہ داریاں ان کے سر تھیں مگر بہت پرسکون اور دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجائے وہ نبھاتے رہے، ان دنوں وہ لاہورکے ایف ایم ریڈیو سے منسلک تھے پھر ہفت روزہ شہری کی ادارت بھی ان کے ذمہ تھی،کچھ عرصہ کے بعد وہ اسلام آباد شفٹ ہوگئے تو کئی تقریبات میں ملاقاتیں ہوئیں مگر باقاعدہ مل بیٹھنے کا موقع نہ مل سکا،سرائیکی وسیب اورسنگت کی محبت میں گرفتار ارشاد امین ساری حیاتی مختلف پراجیکٹ شروع کرتے رہے لیکن جلد ہی کسی نئے پراجیکٹ میں جت جاتے، اکتوبر کی آخری آخری ایک شام فون پر مجھے دسمبر میں لاہور نشست کیلئے مدعو کرنے والے ارشاد امین خود نومبر کے اوائل ہی میں ملتان ٹی وی سے سرائیکی پروگرام کرنے ملتان کے لئے چل پڑے اور ابھی رخت شوق ملتان میں کھلا بھی نہ تھا کہ پانچ نومبر کو سوشل میڈیا پر ان کے نئے ابدی سفر پر روانہ ہونے کی پوسٹ نظر سے گزری تو دل کٹ کر رہ گیا، کیونکہ یہ ایک ایسا سفر ہے جس پرجانے والے کی محض یادیں رہ جاتی ہیں، سفر سے میرے بخیریت لوٹنے کی دعا کرنے والا ارشاد امین خود ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے‘مرحوم اخترؔ شمار یاد آگئے۔
ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا
نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون