بہت دنوں کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن پشاور مرکز جانا ہوا تو اس مرکز میں بیتا ہوا سارا زمانہ جیسے آنکھوں کے سامنے آ گیا، فورٹ روڈ سے جب یہ مرکز موجودہ عمارت میں منتقل ہوا تو فنکار،پیشکار اور انتظامیہ سب بہت خوش تھے اردو ، پشتو اور ہندکو زبان کے نت نئے پروگرام ترتیب دئیے جانے لگے تھے، ان میں سے ایک شاندار کل پاکستان اردو مشاعرہ بھی تھا، جشن آزادی ¿ پاکستان کے حوالے سے ہونے والے اس مشاعرہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ا±ن شعرا کو مدعو کیا گیا تھا جو چودہ اگست 1947 یعنی پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے تھے( مرحوم روشن نگینوی کو اس بات پر شدید اعتراض تھا کہ پشاور مرکز سے نشر ہونے والے پہلے کل پاکستان مشاعرہ میں یہ عجیب و غریب شرط رکھ کر کئی مستند شعرا کو خارج کر دیا گیا ہے )اس مشاعرہ کے پیش کار معروف پروڈیوسراور اس وقت کے پروگرام منیجر شوکت پرویز مرحوم تھے پشاور مرکز سے نشر ہونےوالے کم و بیش دو گھنٹے دورانیہ کے اس تاریخی مشاعرہ میں پشاور کے تین شعرا میں نذیر تبسم ، نرجس افروز زیدی اور میں شامل تھا ، اس پر وقار مشاعرہ کی نظامت کا اعزاز مجھے حاصل ہوا تھا، ان ہی دنوں ’ ماہنامہ ‘ کے نام سے ایک ادبی شو پی ٹی وی کے سارے مراکز سے نشر ہوتا تھا اس مشاعرے کے بعد ہونےوالے ماہنامہ کے جو شو پشاور مرکز سے آن ائیر گئے ان کی نظامت بھی میرے ہی حصے میں آئی بلکہ اس کے بعد کم و بیش سارے اردو کے ادبی پروگراموں کی ترتیب و نظامت میرے ذمے ہی رہی ان میں مجید اللہ خلیل کا پروگرام ’ بزم ‘ بہت مقبول ہوا تھاتب سے اب تک کتنے ہی دل کے قریب دوست بچھڑ گئے، پھر نئے لوگ اس کارواں سے جڑنے لگے اور پی ٹی وی کی رونقوں میں اضافہ ہونے لگا اور پروگرام پروڈیوسرز کے کمروں والے کاریڈور میںسے گزرنا محال ہو جاتا کیونکہ نہ صرف پروڈیوسرز کے کمرے بھرے رہتے بلکہ کاریڈور میں بھی ایک گہما گہمی رہتی، موسیقی کے ریہرسل ہالز میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی، کیونکہ بیک وقت اردو،پشتو اور ہندکو ڈرامہ سیریلز آن ائیر ہوتیں اسی طرح دو ایک مزاحیہ سیریز اور پشتو و ہندکو موسیقی کے شوز کے ساتھ ساتھ گفتگو کے پروگرام بھی ہو رہے ہوتے، اب سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ ساری رونقیں بڑی حدتک ختم ہو گئیں، پی ٹی وی ایک زمانے تک اکلوتا تفریحی چینل تھا اس لئے سکرین پر نظر آنےوالے چہرے پورے پاکستان میں مقبول تھے، لیکن جب نجی چینلز کا جمعہ بازار چھوٹی سکرین پر لگ گیا تو پھر ” جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا “ کے مصداق کل کے مقبول چہرے چینلز کے رونق میلہ میں کہیں کھو گئے یہی حال ڈرامہ رائٹرز کا بھی تھا۔ میںاسی زمانے کے شب و روز میں کھویا ہوا گزشتہ کل پی ٹی وی نیشنل کے پروڈیوسربرخوردار خالد حسین شاہ کی دعوت پر ایک زمانہ بعد پشاور ٹی وی مرکز پہنچا، یہ 26 نومبر کی سہ پہرتھی، یہ وہی تاریخ ہے جب 59 برس پہلے 1964 میں پی ٹی وی مرکز لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کا آ غاز ہوا تھا،اس وقت غالباً ریڈیو پاکستان لاہور میں اس کا عارضی سٹوڈیو اس جگہ بنا تھا جہاں کینٹین تھی‘پشاور مرکز تو خیر اس کے دس سال بعد قائم ہوا ، خوشی اس بات کی تھی کہ پی ٹی وی نیشنل کی نشریا ت کا دورانیہ اب بڑھا دیا گیا ہے، میں تو خیر چھ ماہ سے غیر حاضر رہا مگر شنید ہے کہ اب کچھ بہت اچھے پشتو اور ہندکو کے شوز شروع ہو چکے ہیں،میک اپ روم پہنچا تو انیس احمد سے شمشاد اور عشرت خورشیدسے زری بھابھی تک کئی مہرباں لوگ یاد آئے، آج پی ٹی وی کی سالگرہ کی رونقیں تھیں مگر وہ گزشتہ کل والے ہنگامے نہیں تھے میک اپ روم میںبے بدل فنکارہ شازمہ حلیم، مینا شمس اور ایبٹ آباد کی سونیا خان سے ملاقات ہو گئی، سٹوڈیو پہنچا میزبان جانے پہنچانے فنکار سہیل اسد اور روبینہ صدیقی نے استقبال کیا یہ شو ہندکو زبان کے حوالے سے تھا اور ماضی کے کئی عمدہ سیریلز اور سیریز کےساتھ ساتھ موسیقی کے شوز بھی زیر بحث آئے، عزیز اعجاز نے بطور خاص اپنے پہلے ہندکو زبان کے ڈرامے ” چھاں“ کا ذکر کیا، یہ ڈرامہ میرا بھی ہندکو زبان میں لکھا ہوا پہلا ڈرامہ تھا سچی بات یہ ہے کہ ا±سوقت کے فنکاروں اور لکھاریوں نے آنےوالے ہنر مندوں کےلئے بہت آسانیاں پیدا کیں‘اب وقت ہے کہ نئے دوست ا± سی خلوص سے پی ٹی وی کو نئی توانائیوں کےساتھ چھوٹی سکرین پر ایک بار پھر سرخیل کا درجہ دلا دیں، پی ٹی وی پشاور مرکز سے باہر نکلا تو جانے انجانے میں اپنا ہی ایک شعر کانوں میں سرگوشی کرنے لگا۔
اب تو ہر شخص نے چہرے پہ لہو پہنا ہے
کون مقتل میں تھا اس خاک بسر سے پہلے