سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنی آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیا کہ بغیر کسی تاخیر کے میری آئینی پٹیشنز سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنی آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے خط لکھ دیا، انہوں نے خط چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو لکھا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ بغیر کسی مزید تاخیر کے میری دائر آئینی پٹیشنز کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے خط میں مزید کہا کہ پہلے بھی خط میں 2 آئینی درخواستوں کو طے کرنے کی درخواست کی تھی، حیران کن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں طے شدہ وقت گزر گیا، کسی بھی درخواست کو نہ تو نمبر دیا گیا نہ ہی عدالت کے سامنے مقرر کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت 14 دن کے اندر درخواستوں کی سماعت ذمہ داری ہے، 20 اور 30 نومبر کو اپنے خلاف کارروائی کو چیلنج کرنے والی 2 آئینی درخواستیں دائر کی۔
خط میں مزید کہا گیا کہ عبوری ریلیف کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، درخواستوں کے دائر کیے جانے کے باوجود کونسل میرے خلاف کارروائی کر رہی ہے، یہ عمل سپریم کورٹ کے سامنے میری آئینی درخواستوں کو سنگین طور پر متاثر کر رہا ہ
جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ بدنیتی پر مبنی بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر میرے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا ہے، درخواستوں کی سماعت میں مزید تاخیر میرے لیے شدید تعصب ہو گا، میری دائر عبوری ریلیف کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔