ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں


اور اب تو ’ جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کرنے والے بچے چالاک ‘ سے زیادہ ذہین گردانے جاتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف اشیا اپنی ماہیت بدل دیتی ہیں بلکہ گزشتہ کل کی اقدار ہی کے نہیں لفظوں کے معانی بھی بدل جاتے ہیں، جب امریکہ سے ٹورسٹ ہپی کے روپ میں ہمارے ہاں پہنچے اور جینز کا کلچر چھوڑ کر واپس سدھارے جسے خوشی خوشی اپنا لیا گیا مگر یہ بات صرف پہناوے کی حد تک نہیں تھی رویوں میں بھی تبدیلی آئی اگر چہ انگریز یہاں آکر حکمران بن گئے تھے مگر ان کے کلچر کو یہاں صدیوں میں وہ مقبولیت نہ ملی جو امریکی کلچر نے مہینوں میں حاصل کر لی تھی، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کے برعکس برطانیہ میں مقیم غیر ملکی گھرانوں نے یورپ کا کلچر بہت جلد اوڑھ لیا ، اب وہاں جن گھرانوں میں مجھے جانا ہوا ان میں سے بیشتر گھروں میں مجھے محسوس ہوا کہ بچوں اور ان کے والدین کے درمیان ایک ہی چھت تلے رہتے ہو ئے بھی بہت بڑا فاصلہ حائل ہو چکا ہے، والدین بچوں کو تعلیم یا جاب کے سلسلے میں اگر ذرا برابر دھیمے لہجے میں بھی کوئی مشورہ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دو ٹوک انداز میں سننا پڑتا ہے کہ ” سوری اٹس مائی لائف“ ایسا نہیں کہ امریکہ میں یہ سب نہیں ہوتالیکن وہاں شروع ہی سے بچوں کو ایک حد میں رکھنے کی شعوری کوشش نے اچھے اثرات مرتب کئے ہیں ، اس لئے بہت سے گھرانوں کے نوجوانوں میں وہ ر کھ رکھاو¿ اور ادب آداب ا ب بھی ہے جو ان کے والدین 
یہاں سے ساتھ لے کر گئے تھے۔ مجھے امریکہ میں بزرگوں کے ساتھ ساتھ جواں سال لوگوں میں اپنے مذہب سے جڑے رہنے نے بہت متاثر کیا، خصوصاً بر وقت نماز کی ادائیگی کی عادت تو قابل رشک تھی، کسی قسم کی مصروفیت بھی ہو ،کوئی بھی تقریب چل رہی ہو، شاپنگ مال ہو یا پھر وہ سیر کے لئے نکلے ہوں، ادھر نماز کا وقت ہوا ادھر ساری سرگرمیاں معطل اور نماز ادا کرنے کھڑے ہو گئے، جب ہم خزاں کے رنگ دیکھنے ” اس ٹس پارک‘ میں تھے یا جادوئی جھیل ’ ڈلن ‘ کی خوبصورتی میں کھوئے ہوئے تھے پر ہجوم جھیل کے کنارے گاڑیوں سے جائے نماز اور چٹائیاں نکال کر، ظہر اور عصر کی با جماعت ادائیگی کا اہتمام ہوا تھا، یوں تو بیشتر نمازیں میں نے افراز علی سیّد کے دوست برخوردار سلمان کی امامت میں ادا کیں ، مگر دو ایک بار مجھے ان نماز وںنے بھی عجب لطف دیا جو میں نے برخوردار افراز علی سیّد کی امامت میں ادا کیں، اسی طرح غیر ماحول میں اپنی مٹی کی بہت سی اچھی اقدار کی پاسداری نئے لوگوں میں دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے ،یہ اور بات 
کہ اب ہمارے ہاں کی نئی نسل تیزی سے اِن اقدار سے انگلی چھڑا رہی ہے، مشر کشر کا جو انسٹی ٹیوٹ ہماری پہچان ہے، وہ بھی اب اتنا فعال نہیں رہا،خصوصاً اس کا چلن نئے لوگوں میں بہت کم ہو رہا ہے جو بیک وقت خود کو باون گزے (ہمچو ما دیگرے نیست)بھی سمجھنے لگے ہیں اور اظہر عنایتی کے ہم زبان بھی بنے ہوئے ہیں
راستو ! کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے¿
لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ ’ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ‘ گزشتہ کل ہی مجھے فنکاروں کی سجائی ہوئی ایک پر رونق شام میں قدرے تاخیر سے جانے کا اتفاق ہوا، نشتر ہال بھرا ہوا تھا اور بہت سے دوست اطراف میں بھی کھڑے ہوئے تھے، قریب تھا کہ میں واپس لوٹ جاتا اچانک دوست عزیز ڈرامہ ڈائریکٹر رشید سہیل پراچہ کی نظر مجھ پر پڑی وہ پہلے انکلوژر کی پہلی ہی لائن میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے مجھے اپنی سیٹ پر بٹھا کر خود زمین پر بیٹھ گئے مگر فوراً ان کو بھی کسی نوجوان نے اپنی نشست دے دی میں اس نوجوان کو تو پہچان نہ سکا مگر یہ جسچر مجھے بہت سرشار کر گیا، یہ تقریب آرٹسٹ ایکشن فاو¿نڈیشن کی حلف برداری کی تھی، مجھے اس وقت بھی بہت اچھا لگا جب نہ صرف شازمہ حلیم،اے آر نور،گوہر جان اور عرفان خلیل سمیت ان گنت دوست مجھے 
ملنے میرے پاس آئے بلکہ پروگرام کے کمپیئر دوست عزیز جمشید علی خان نے پروگرام کے دوران خصوصی اناو¿نسمنٹ کرتے ہوئے اپنی محبت کا اتنابھر پور اظہار کیا کہ مجھے کھڑے ہو کر شکریہ ادا کرنا پڑا ،اس طرح فلم اور ٹی وی کے خوبصورت فنکار عجب گل نے بھی اپنی گفتگو میں میرا ذکر کر کے مجھے اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کر دیا جب یہ نشتر ہال بنا تھااور اس کا پہلا پہلا شو ہوسٹ کرنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا تھا، جس میں مہدی حسن اور فریدہ خانم اور مقامی مقبول فنکار مہ جبین قزلباش اور گلریز تبسم کو میں نے بلایا تھا،اور پھر میوزک شوز کا یہ سلسلہ دو ڈھائی دہائیوں تک چلا ایسے ہی ایک شو میںعجب گل کو بھی میں نے شامل کیا تھا جو ان کا نشتر ہال میں پہلا شو تھا،جمشید علی خان بھی عالمزیب عامر اور میرے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے، اس تقریب میں ایسے بہت سے دوست اس دن ہال میں موجود تھے جنہیں ٹی وی کا راستہ میں نے دکھایا تھا ان میں عرفان سنگر سے لے کر آرٹسٹ ایکشن فاو¿نڈیشن کے چیئر مین اور ایک عمدہ فنکار ڈاکٹر نیاز علی خان بھی شامل ہیں آج ان سب کو کامیاب اور کامران دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں اب تو خیربہت سے نئے فنکاردوست بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے ہیں اور بہت عمدہ کام کر رہے ہیں، ان کا جوش اور ولو لہ دیکھ کر میں احمد مشتاق کا ہم زبان ہو جاتا ہوں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہو تی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں