سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس پرسماعت کا آغاز ہوگیا۔ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجربینچ کررہا ہے۔ عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جارہی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجرمیں اُن کے علاوہ بینچ جسٹس سردارطارق ، جسٹس منصور،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس امین ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس علی مظہر،جسٹس حسن اظہراور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
عوامی جلسوں اور پریس کانفرنسز میں ریفرنس کو سماعت کیلئے مقررکرنے استدعا کرنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز وکیل فاروق ایچ نائیک کی وساطت سے صدارتی ریفرنس پرعدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست دائر کی تھی۔
چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی آج عدالت میں پیش ہوں گے۔
صدارتی ریفرنس سابق صدرآصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جو گزشتہ 12 سال سے زیر التوا ہے۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخارچوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی بینچ نے کیں۔
آغاز پر اٹارنی جنرل اوربلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نےکہا کہ پہلےیہ دیکھ لیتے ہیں کون کس کی نمائندگی کرتاہے۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بلاول بھٹو نے فریق بنےکی درخواست دے دی ہے، میں اُن نمائندگی کروں گا۔
چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پروضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرارہےیہ واپس نہیں کیاگیا۔ ایک سینئرممبربینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 2 اور ججزنے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
چیف جسٹس کی ہدایت پراٹارنی جنرل نے کمرہ عدالت میں صدارتی ریفرنس پڑھا۔
صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے 5 سوالات
آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس میں پانچ سوالات اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی۔
کیا سابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں شامل بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
کیاپھانسی کی سزا کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پرآرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ اورتمام ہائیکورٹس پر لاگو ہو گا؟اگر نہیں تو فیصلے کے نتائج کیا ہونگے؟
کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ کیا ذاولفقارعلی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا یہ فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
کیا یہ سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
کیا سابق وزیراعظم کیخلاف ثبوت اور گواہان کے بیانات انہیں سزا سنانے کیلئے کافی تھے؟
سماعتیں کب ہوئیں
پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اورآخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا ۔ بعد ازاں اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔
نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم تب سے اس ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیاتھا۔
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔