اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی برطرفی کیس کی سپریم کورٹ میں براہ راست سماعت کل صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے پو چھا کہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟وکیل حامدخان نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے فی البدیہہ تقریر کی تھی،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اس لیے پوچھا کہ ممکن ہے لکھی تقریر پڑھنے سے کوئی فرق پڑتا ہو، حامد خان نے کہا کہ نہیں شوکت عزیز صدیقی نے تقریر زبانی کی تھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یعنی فی البدیہہ تقریر تھی اور یہ دل کی آواز تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت میں درخواست میں فیض حمید اور بریگیڈیئر کا گھر آنے کا ذکر کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ کا الزام ایک فرد پر ہے تو اسے فریق تو بنائیں،ادارے نہیں بولتے ادارے میں بیٹھی شخصیات ہی بولتی ہیں، میرا اصول ہے جس پر الزام لگاؤ اس کو بھی سنو ممکن ہے وہ الزامات تسلیم کر لے،صحافی بیٹھے ہیں ، کل اس شخص کا نام اخبارات کی زینت بن جائے گا، ہم کسی کو کچھ لکھنے سے تو نہیں روک سکتے، جس شخص پر الزام لگا رہے اسے فریق بنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ حامد خان نے جواب دیا کہ مجھے فریق بنانے پر کوئی اعتراض نہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ جس پر الزام لگا رہے کیا اس نے کسی فورم پر آپ کو جواب دیا؟چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی عدالت میں کچھ بھی بول دیتے ہیں ، فیصلہ لکھنے میں احتیاط برتتے ہیں۔
چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاجس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟وکیل حامدخان نے کہافیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا،چیف جسٹس نے کہا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں،جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے اس شخص کو نوٹس کیا تھا؟حامد خان نے جواب دیا کہ ہمیں اس وقت موقع نہیں دیا گیا تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ کے پاس موقع بھی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں سپریم کورٹ ہے،آپ جس پر الزامات عائد کر رہے اسے فریق تو بنانا چاہیے، شاید میں غلط ہوں لیکن ادارے برے نہیں لوگ برے ہوتے ،ہم شخصیات کو برا نہیں کہتے، اداروں کو برا بھلا بولتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے حامد خان سے سوال کیا کہ اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے؟حامد خان نے جواب دیا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 3 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس بنایا کہ سرکاری رہائش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے اضافی اخراجات کیے،ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں،
کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے،ایک ریفرنس فیض آباد دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج ریمارکس دیئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا؟، شوکت صدیقی کیخلاف شکایات کنندگان کون تھے؟حامد خان نے بتایا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکایت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے،ایک ریفرنس ایڈوکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ مجھے کنفرم نہیں لیکن شاید آزاد حیثیت میں ہونگے، جسٹس جمال خان مندوخیل کہا کہ یعنی آپ کہہ رہے جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے، حامد خان نے کہا کہ راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشیل کونسل نے خود نوٹس لیا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جودیشل کونسل کو کیسے پتہ چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ؟حامد خان نے کہا کہ ایجینسیوں نے شکایت کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہے،حامد خان نے کہا کہ ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے۔
آپ نے جن پر الزام لگایا اس کو فریق بنائیں ورنہ دوسرے نکتے پر دلائل دیں،چیف جسٹس
ہم فیض حمید کو فریق بنانا چاہتے ہیں،وکیل حامد خان
پھر اپنی درخواست میں ترمیم کریں ہم کل کیس سن لیتے ہیں،چیف جسٹس
کل ہوسکتا ہے جس کو فریق بنائیں ان کو عدالت نوٹس جاری کرے،چیف جسٹس
کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی