ججوں کی تقرری کے لیے قوانین کو ترتیب دینے کے لیے اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ ساتھ بار کونسلز کے نمائندگان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی ایک کمیٹی نے ججوں کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ترقی کے لیے انتخاب کے معیار میں ترمیم کرنے پر اتفاق کرلیا۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز جسٹس سید منصور علی شاہ اور ریٹائرڈ جسٹس منظور احمد ملک کی شریک سربراہی میں ہوا۔
کمیٹی کے دیگر اراکین میں سندھ ہائی کورٹ کے جج ندیم اختر، بلوچستان ہائی کورٹ کے جج محمد ہاشم خان کاکڑ، پشاور ہائی کورٹ کے جج اشتیاق ابراہیم، لاہور ہائی کورٹ کے جج شہزاد احمد خان، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور بار کونسل کے اراکین شامل ہیں۔
بیان کے مطابق کمیٹی نے اپنے مینڈیٹ پر تبادلہ خیال کیا، یعنی ایسے اصول تجویز کیے جائیں جو آئین کے آرٹیکل 175اے میں درج اجتماعی اور جامع فیصلہ سازی کے عمل کی تعمیل کرتے ہوں۔
کمیٹی نے نامزدگیوں اور کمیشن کا اجلاس طلب کرنے کے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ججوں، ہائی کورٹ کے ججوں اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی نامزدگی کے طریقہ کار پر غور کیا۔
اس میں ہائی کورٹ کی تعیناتیوں میں ایڈووکیٹ اور جوڈیشل افسران کی نمائندگی، اس طرح کی تعیناتیوں میں تنوع، میرٹ کے تعین کے معیار، ایڈیشنل ججز کی تصدیق کے لیے طریقہ کار اور معیار اور جوڈیشل کمیشن کے سیکرٹریٹ کے قیام پر بھی بات ہوئی، کمیٹی نے رولز کے مسودے کو 29 دسمبر تک حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔
وکلا کا نمائندگی کا مطالبہ
وکلا کی تنظیمیں حکام پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ججوں کی تعیناتی کے لیے قواعد ترتیب دیں، جنہیں 18ویں ترمیم میں تبدیل کیا گیا تھا۔
مقننہ نے تجویز پیش کی کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن ایسے نام تجویز کرے گا جو ججوں کی تعیناتی پر پارلیمانی کمیٹی کی توثیق سے مشروط ہوں گے۔
2010 کے بعد سے اعلیٰ عدالتوں میں ترقی پانے والے زیادہ تر ججوں کو چیف جسٹس نے منتخب کیا ہے،ا 19ویں ترمیم کے بعد پارلیمانی پینل محض ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گیا تھا۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی میں توازن پیدا کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی نے ایک دہائی سے زائد عرصے سے لگاتار اجلاس منعقد کیے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے 2 دسمبر کو ججوں کی تعیناتی کے قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اجلاس کی تفصیلات سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور بار کونسلز نے قواعد میں ترمیم کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں، ان تجاویز کا کمیٹی نے جائزہ لیا، بعد میں اتفاق رائے سے قواعد کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق بار کونسلز چاہتی ہیں کہ جوڈیشل کمیشن قوانین وضع کرے، جس سے وکلا تنظیموں کو ججوں کی تعیناتیوں میں قیمتی معلومات دینے کے قابل بنایا جائے، بار کونسلز بینچ اور بار کے درمیان ’بامعنی‘ مشاورت کے ذریعے امیدوار کے انتخاب کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وکلا تنظیموں نے ہائی کورٹ کے جج کے عہدے کے لیے وکیل کی سفارش کرنے کے اختیارات کا بھی مطالبہ کیا، تاہم یہ جوڈیشل کمیشن کی صوابدید ہوگی کہ وہ سفارش کو قبول یا مسترد کرے، موجودہ قوانین کے تحت بار ایک خاموش تماشائی کی طرح ہے۔
واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن نے 2010 کے قوانین اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں بنائے تھے، ان قوانین نے اعلیٰ عدلیہ میں خالی اسامی پر تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن میں نامزدگیوں کے لیے اعلیٰ جج کو اختیار دیا۔
قاعدہ نمبر 4 کمیشن کی کارروائی کو منظم کرنے کا اختیار چیئرمین (جو چیف جسٹس ہوتا ہے) کو دیتا ہے، جو اپنے کام کی انجام دہی کے لیے کسی بھی شخص یا اتھارٹی سے درکار معلومات یا ریکارڈ طلب کر سکتا ہے۔
قاعدہ 5(4) کے تحت کمیشن کی کارروائی اِن کیمرا کی جائے گی، اس کے علاوہ قاعدہ 5(5) کے تحت چیئرمین ضرورت کے مطابق ارکان کی ایک یا زیادہ کمیٹیاں تشکیل دے سکتا ہے۔