وزارت دفاع کو لیز شدہ 3413 ایکڑ اراضی کی ادائیگی کا حکم

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو لیز شدہ 3413 ایکڑ اراضی کی ادائیگی کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے زمینداروں کو معاوضے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے 50 سال قبضے کے بعد 3413 ایکڑ اراضی واپس کرنے کے کیس میں وزارت دفاع کی درخواست خارج کر دی،عدالت عظمیٰ نے معاوضے کی ادائیگی کا تعین 2018 میں کیا تھا۔

زمین کے حصول کا عمل 1977 میں شروع ہوا اور اپیل کنندہ (وزارت دفاع) کی نااہلی اور لاپرواہی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا۔ تب سے زمیندار اپنے جائز حقوق کے حصول کیلیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

جسٹس شاہد وحید کے تحریر کردہ 11 صفحات پر مشتمل فیصلے میں وزارت دفاع کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ حقائق کی بنیاد پر قانون اپیل کنندہ کی بے حسی کو معاف نہیں کر سکتا اور اراضی سے دستبرداری کی منظوری نہیں دے سکتا، سیکشن 48 کے تحت کسی بھی صورت میں 7 اکتوبر 2019 کے نوٹیفکیشن کو درست نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے اپیل کنندہ کی جانب سے زمینداروں کو دھوکہ دینے کی ایک چال سمجھا جائے گا، حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اراضی سے دستبرداری مسترد کر دی، متنازع زمین ضلع نوشہرہ کے مختلف موضع جات میں واقع ہے اور اس کی پیمائش 3413 کنال 11 مرلہ ہے۔اس زمین کو سب سے پہلے 1955 میں وزارت دفاع نے آرٹلری رینج کے لیے لیز پر حاصل کیا، اس کے بعد اسے حصول اراضی ایکٹ1894 کے تحت حاصل کرنیکا ارادہ کیا گیا، اور اس طرح 13 مئی1977 کو سیکشن 4 کے تحت ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت کارروائی 22 سال تک جاری رہی۔

اس ایوارڈ کا اعلان 21 اپریل 1999 کو ہوا، اس سے زمینداروں کیلیے آزمائشوں اور مصیبتوں کے ایک اور نئے دور کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں مذکورہ زمین کے مناسب تعین کیلیے طویل قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی،جس کا اختتام سپریم کورٹ کے 15 فروری 2018 کے فیصلے پر ہوا، جس میں 6 فیصد سود اور 15 فیصد لازمی چارجز کے ساتھ 12ہزار روپے فی مرلہ معاوضہ مقرر کیا گیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ زمینداروں کو پریشانی میں تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا،عدالت نے کہا اگر حکومت یا محکمہ دفاع کے پاس فنڈز نہیں تھے تو قبضہ لینے سے پہلے زمین مالکان کو بتانا چاہیے تھا، عدالت نے وزارت دفاع کی درخواست خارج کر دی۔