قومی احتساب بیورو (نیب) عمران خان اور دیگر کیخلاف توشہ خانہ کیس میں کرپشن ریفرنس دائر کرنے کیلئے تیار ہے۔ باخبر ذرائع نے توقع ظاہر کی ہے کہ توشہ خانہ ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں رواں ہفتے دائر کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اس معاملے میں تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور بیورو کی اعلیٰ انتظامیہ نے استغاثہ کے ساتھ مشاورت کے بعد عمران خان کیخلاف کرپشن ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ نیب کی جانب سے عمران خان کیخلاف احتساب عدالت میں دائر کیا جانے والا دوسرا کرپشن ریفرنس ہوگا۔ چند روز قبل، نیب نے عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور دیگر کیخلاف القادر ٹرسٹ کیس میں کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔ نیب کی مداخلت سے قبل، عمران خان دو مرتبہ پہلے بھی توشہ خانہ اسکینڈل کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہیں۔ 21؍ اکتوبر 2022ء کو عمران خان کو قومی اسمبلی سے پانچ سال کیلئے الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دیا تھا کیونکہ وہ مہنگے تحائف فروخت کرنے کے معاملے میں سچ چھپانے کے مرتکب قرار دیے گئے تھے۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ یہ فیصلہ سنایا تھا اور سچ سامنے نہ لانے کی وجہ سے عمران خان کیخلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ عمران خان کیخلاف فیصلہ کے بعد، الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں عمران خان کیخلاف کیس بھجوا دیا، عدالت نے رواں سال اگست میں عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین سال کی سزا سنائی۔ توشہ خانہ کیس کا تنازع اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک صحافی کی جانب سے معلومات کے حصول کے قانون (رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ) کے تحت پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم یہ بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ انہیں عہدے پر رہتے ہوئے کتنے تحائف ملے تھے۔ حکومت کی جانب سے یہ کہتے ہوئے جواب دینے سے انکار کیا گیا تھا کہ جواب دینے کی صورت میں دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔ صحافی نے فیڈرل انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کرائی کیونکہ کابینہ ڈویژن نے عمران خان کے متعلق توشہ خانہ کی معلومات دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کمیشن نے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار کو معلومات فراہم کی جائیں۔ لیکن، عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے تعمیل میں ناکامی کا مظاہرہ کیا جس پر درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاکہ فیڈرل انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کی تعمیل کرائی جا سکے لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی حکومت نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا۔