اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ایف آئی اے اور دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکےبیٹےاوربشریٰ بی بی کی درخواستوں پرسماعت ہوئی ، بشری بی بی کے وکیل لطیف کھوسہ ، اٹارنی جنرل منصوراعوان عدالت میں پیش ہوئے ۔
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم آفس کی رپورٹ اسلام آبادہائیکورٹ میں پیش کر دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کرنےکی اجازت نہیں، ایف آئی اےکو پہلےدیکھناہےکہ کس نےکال ریکارڈکی، اگرکوئی حکومتی ایجنسی یہ ریکارڈنگزکررہی ہےتو وہ غیرقانونی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ عدالتی احکامات کےبعدایف آئی اے ٹیلی کام کمپنیوں کو لکھ رہا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمزسےرپورٹ لیناہوگی تب ہی تحقیقات آگےبڑھ سکتی ہیں۔
دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کہا گیاہے کہ آڈیو لیک کے سورس کاپتا نہیں لگاسکتے ، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہےاس کوحل کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو وزیراعظم آفس کے ذریعے ریورٹ فائل کرنی چاہیے تھی، وکیل پیمرا نے کہا کہ پرائیویٹ آڈیو لیک کو ٹی وی چینل نشر نہیں کرسکتا، عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا اس حوالے سے کیا ایکشن لے رہا ہے؟
عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی صاحب آئندہ سماعت پر آپ تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں، اب وفاقی حکومت پر ہے کہ وہ کیسے چلانا چاہتے ہیں۔
اس کیس میں سینئرصحافیوں کوعدالتی معاون مقررکریں گے ،اگروفاقی حکومت یاادارےنہیں بتائیں گےکہ یہ سب کیسےہوتا ہےتونیشنل یا انٹرنیشنل سرویلنس کنسلٹنٹ کوعدالتی معاون مقرر کردیاجائےگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے اور دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔