جہلم تا پنڈ داد خان ڈوئل کیرج وے منصوبے میں مبینہ کرپشن کےالزام میں عدالت نے فواد چوہدری کا 10روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق نیب نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کو پنڈ دادنخان،جہلم دو رویہ سڑک کی تعمیر،زمین خریداری میں خردبردکیس میں عدالت پیش کردیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔فوادچودھری کے وکیل فیصل چودھری اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر عرفان بھولا، سہیل عارف اور تفتیشی افسر بھی عدالت پیش ہوئے۔
نیب کی جانب سے فواد چودھری کے14روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔عدالتی ہدایت پر کیس کی کاپی فیصل چودھری کو فراہم کردی گئی۔
عدالتی ہدایت پرفوادچودھری کے کوائف لکھوائے گئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کون سا کیس ہے اور کیس نمبر کیاہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ 10 نومبر 2023 کو جہلم للہ روڈ کی انکوائری ہوئی،انکوائری شروع کی لیکن شامل تفتیش ہونے سے انکار کیا،19 دسمبر کو وارنٹ کی تعمیل کرائی،بطوروفاقی وزیر دباؤ ڈال کر کام کرایا،پی سی ون تیار کرایا،ٹھیکیدار سے بھی معاملات کرائے،انکوائری مکمل کرناہے،تفتیش کرنی اور ریکارڈ حاصل کرناہے،انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے شامل تفتیش کرنے کیلئے ریمانڈ ضروری ہے،پہلا جسمانی ریمانڈ ہے 14 دن کا ریمانڈ دیاجائے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ یہ نہیں بتایاگیا کہ الزام کتنی مالیت کا ہے۔
فواد چودھری نے کہا کہ ہم2016 سے آپ کے ہاں پیش ہورہے ہیں، ڈیڑھ 2 ماہ سے اڈیالہ جیل ہوں،اینٹی کرپشن کے ریمانڈ بھی بھگتے جو عدالت مناسب سمجھے کریں گے،پہلی بار وارنٹ کل مجھے تعمیل کرائے تو الزامات کا علم ہوا، اس پر نوٹ لکھا تھا اس کی کاپی فراہم کی جائے،پہلی بار کہ میں پراسیکیوشن سے تعاون نہیں کررہا یہ تو جھوٹا ہے میں جیل میں تھا،سیاست میں دباؤ کی سمجھ نہیں آئی پوری سیاست کی عوامی خدمت ہے اگر ہسپتال سڑک فراہم نہ کرسکیں تو سیاست کا فائدہ کیا ہے۔
فواد چودھری نے مزید کہا کہ ایف ڈبلیو او کے ڈی جی میجر جنرل ہیں، دوسرا نیسپاک اور چیف انجینئر وغیرہ ہوں گے جو ملزمان میں نہیں ہوں گے،میں یہ چاہتا کہ شریک ملزم مجھے گرفتار کرلیا گیا لیکن مین ملزم تو ہیں ہی نہیں،پرائیویٹ کنٹریکٹر کو کنٹرکٹ دلوایا لیکن کام تو ایف ڈبلیو اور نےکیاہے،اگر ایف ڈبلیو او اور نیسپاک کے کام پر اعتراض کریں تو کیا ہوگا،اس سڑک پر سات ارب خرچ ہوچکے ہیں اور میری گاڑی نہیں چلنی عوام کی سہولت ہے،رقم نہیں بتائی کہ کتنی وصول کرنی ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جنہوں نے منصوبہ منظور کیا کیا وہ ملزم ہیں؟ میرے علاقہ میں دوسرا نوٹس بھیجا جو اسلام آباد ہائیکورٹ چیلنج کیا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ 8 کنال اراضی اسی وقت خریدی اور ملزم کے نام منتقل ہوئی،50 لاکھ کا الزام ہے۔
فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ 2022 کا پراجیکٹ ہے اور زمین2019 میں خریدی،سکندراعظم کے زمانہ کی روڈ ہے جو کشادہ کی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے فیملی سے ملاقات کرانے کی ہدایت کردی۔
وقفے کے بعدسماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے فواد چوہدری کا 10روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
عدالت کے سامنے الیکشن کے کاغذت نامزدگی پر دستخط کی بھی اجازت دے دی گئی۔فوادچودھری الیکشن کے دیگر امور کیلئے بھائی فراز چودھری کے نام پاور آف اٹارنی پر بھی دستخط کردیے۔
قبل ازیں نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے ترمیم شدہ درخواست عدالت پیش کردی گئی.نیب کی استدعا پر عدالت نے فواد چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری کردئیے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل سے عدالت پیش کیا جائے۔
قبل ازیں احتساب عدالت اسلام آباد میں نیب کے پراسیکیوٹر نے فواد چوہدری کوعدالت میں پیش کرنے کی اجازت مانگتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل ہوچکی ہے، پروڈکشن آرڈر کردیں تاکہ جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کردیں، ملزم جوڈیشل کسٹڈی پرہے۔
پراسیکیوٹر نیب نے مؤقف پیش کیا کہ گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش کرنا لازمی ہے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد اب نیب کی تحویل میں ہے،جیل سپرنٹینڈنٹ کو اتنا کہہ سکتے ہیں آپ کو ملزم کو عدالت میں لانے کی اجازت دے۔
جج محمد بشیرنے درخواست ترمیم کیساتھ دوبارہ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو عدالت لانے کے لیے اجازت دینے کی درخواست دیں۔