ہم بھی سادہ ہیں ا±سی چال میں آ جاتے ہیں 

یادش بخیر یہ ستر کی دہائی کے اوائل کی بات ہے میں ان دنوں نظامت تعلیمات سے جڑے ہوئے دو دوستوں محمد یعقوب مرحوم اور محمد یوسف عاصی کے ہمراہ سول ڈیفنس اکیڈیمی لاہور میںہونے والے فائر آفیسر کورس کے لئے لاہور جا رہا تھا ان دنوں سرکاری ٹرانسپورٹ جی ٹی ایس کے علاہ ’سوان‘ کے نام سے ایک نئی سروس شروع ہوئی تھی ان کے پاس جی ٹی ایس کے مقابلہ میں نئی سبک رفتاراور لگژری بسیں تھیںاور جو پشاور سے لاہور جی ٹی ایس کی نسبت ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے پہنچاتی تھیں، ہم نے بھی ’سوان‘ سروس کا انتخاب کیاتھا رات گئے روانہ ہونے والی یہ بس جہلم میں قیام برائے طعام کے لئے پندرہ منٹ کےلئے رکی میرے دوست محمد یعقوب اور محمد یوسف بھی اتر گئے البتہ مجھے چائے کی طلب نہیں تھی میں بس میں ہی بیٹھا رہا، کچھ ہی دیر بعد بس کے باہر سے میری کھڑکی کے شیشے پر کسی نے دستک دی میں نے شیشہ سرکایا تو اس شخص نے کہا ” اچھا ہے آپ باہر نہیں نکلے باہر بہت سردی ہے “ پھر کہا کہ آپ کو زحمت دے رہا ہوں ذرا ساتھ والی سیٹ سے میرا کمبل مجھے پکڑا دیجئے میں نے کمبل دیتے ہوئے کہا اند آ جائیے بس کا ماحول گرم ہے‘ جی آتا ہوں کہہ کر وہ ریستوران کی طرف چل دیا، کچھ دیر بعد سارے مسافر لوٹ آئے، اچانک میرے ساتھ والی سیٹ کے مسافر نے پہلے مسافروں سے اور پھر بس کنڈکٹر کو بلا کر پوچھا میری سیٹ پر میرا کمبل پڑ اہوا تھا اب نہیں ہے، یہ سن کر میں نے ان صاحب کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں نے جس شخص کو کھڑکی سے کمبل پکڑایا تھا وہ توکوئی اور تھا،میں اسے بتانا چاہتا تھا مگر مجھے محمدیعقوب نے منع کر دیا کہ حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے کہ اب تم خاموش رہو، سو نہ چاہتے ہوئے بھی میں چپ رہا مگر سوچ رہا تھا کہ وہ کتنا بڑا فنکار تھا اور کس اعتماد سے پہلے سردی کی بات کی اور پھر کمبل مانگااس کے ڈرامہ کے سکرپٹ میں انسانی نفسیات اور منطق کے سارے حوالے معتبر اور مضبوط تھے جس میں میرا کردار ثانوی مگر بہت اہم تھا، مجھے امریکن رائٹر او ہنری کی ایک کہانی یاد آگئی جس میں کسی پارک میں شام کے وقت ایک صاحب آ کر ایک بنچ پر جونہی بیٹھے تو سامنے
 والے بنچ پر بیٹھا ہوا ایک شخص اٹھ کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ میں اس شہر میں مسافر ہوں اور کچھ دیر پہلے ایک ہوٹل میں کمرہ لیا تھا مگر ہوٹل میں جو صابن دیا گیا وہ میرا برانڈ نہیں تھااس لئے میں کچھ پیسے جیب میں ڈال کر اپنے برانڈ کا صابن خریدنے ہوٹل سے باہر نکلا کئی سٹور میں ڈھونڈنے کے بعد مجھے بالآخر ایک سٹور سے صابن مل گیا میں نے دو ٹکیاں خرید لیں اور سٹور سے باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ میں تو ہوٹل سے بہت دور نکل آیا ہوں بہت ڈھونڈا مگر مجھے ہوٹل نہیں مل سکا اور مجھے نام بھی یا دنہیں کیونکہ کئی ہوٹلوں کے بعد بمشکل اس ہوٹل میں کمرہ ملا تھا، اب رات ہونے والی ہے میرے پاس بس اتنے پیسے تھے کہ صابن خرید لیا ،مجھے آپ کچھ رقم قرض دے دیں اور اپنا ایڈریس دے دیں میں رات کسی اور ہوٹل میں گزار لوں تو کل دن میں اپنے ہوٹل کو ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا پھر میں آپ کی رقم آپ کو واپس کر دوں گا، اس شخص کو اس کی کہانی پر یقین نہیں آیا اس لئے کہا کہ کہانی تو خاصی دلچسپ ہے مگر تم نے جو صابن خریدا وہ مجھے دکھا دو تو مجھے بھی یقین آجائے، اس نے جلدی جلدی اپنی جیبوںکو ٹتولا اور پھر کچھ کہے بغیرسرجھکا کر ایک طرف روانہ ہو گیا، اس شخص نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک غلط شخص کی مدد نہیںکی مگر اچانک اس کی نظر اس بنچ پر پڑی جس پر وہ جھوٹی کہانی سنانے والا شخص بیٹھا ہوا تھا ، اسے بنچ کے نیچے کچھ پڑا ہوا دکھائی دیا، وہ بھاگ کر گیا دیکھا تو ایک لفافہ تھا جس میں اسی برانڈ کی دو ٹکیاں پڑی تھیں اوہ تو وہ سچ کہہ رہا تھا وہ بھاگ کر ادھر گیا جس طرف وہ شخص گیا تھا، وہ پارک سے باہر نکل ہی رہا تھا،اس نے پاس جا کراسے صابن کا
 لفافہ ، اپنا ایڈریس اور کچھ رقم دے کر معذرت کی کہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کی بات کا یقین نہیں وہ شخص رقم لے اور دعائیں دے کر چلا گیا ،اب یہ شخص نیکی کرکے بہت خوش خوش واپس اپنی بنچ کی طرف آیا تو دیکھا کہ سامنے والی بنچ کے پاس ایک بوڑھا شخص کھڑا کچھ ڈھونڈ رہا ہے یہ اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کیا مسئلہ ہے ،اس بوڑھے شخص نے کہا کچھ دیر پہلے میں اس بنچ پر بیٹھا تھا ،یہاںمجھ سے صابن کا لفافہ رہ گیا تھا۔ کہانی ختم ہو گئی مگر مجھے یقین ہے کہ نیکی کرنے والا وہ شخص بھی چپ ہو گیا ہوگا اور اسے نہیں بتایا ہوگا کہ وہ تو میں کسی ” فنکار“ کو دے بیٹھا ہوں، یہ سب مجھے یوں یاد آیا کہ چند روز پہلے مجھے رفعت علی سید نے بتا یا کہ گلبہار سے وہ دونوں بہنیں رکشہ میں گھر آرہی تھیں کہ ٹیکنکل سکول کے پاس رکشہ والے نے کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں ابھی ورکشاپ سے نکلا ہوں ،سواریاں ساتھ ہیں فوراً نہیں آسکتا‘ پھر ایک سائیڈ پر رکشہ روکتے ہوئے کہا کہ ہوا کیا ہے پھر چیخ کر کہا، نہیں ۔ ثمینہ مر گئی‘ اوہ میں آتا ہوں ایمبولنس کا بھی کچھ کرنا ہو گا‘ فون بند کرکے ہمیں کہا کہ جی آپ دوسرا رکشہ کرا لیں میری بیوی فوت ہو گئی ہے،اللہ کرم کرے ‘پیسے بھی سارے ورکشاپ میں دے آیا ہوں، ہم رکشہ سے اتر گئے اور جو کچھ ہم سے ہو سکا ہم نے اس کو کچھ رقم بھی دے دی جو اس نے رسمی سے انکار کے بعد لے لی، یہاں تک تو کہانی سیدھی سادی ہے مگر کہانی میںفنکارانہ موڑ اس وقت آیا جب چار روز کے بعد ان کی بھابی گھر آئی اور افسردگی سے کہنے لگی،میں جس رکشے میں آ رہی تھی اس بے چارے کو راستہ میں فون آ یا کہ اس کی ماں فوت ہو گئی ، کہہ رہا تھا ابھی ورکشاپ سے نکلا ہوں،پیسے بھی سب ان کو دے آیا۔ بھابی کی بات سن کروہ پوچھنے لگی یہ رکشہ والا ادھیڑ عمر کا تو نہیں تھا ‘پھر کچھ اور نشانیاں بتائیں تو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی فنکار تھا جو چار دن پہلے اپنی بیوی کو ”مار“ چکا تھا، دوست عزیز افضل خان کا شعر یاد آ گیا۔
 تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
 ہم بھی سادہ ہیں ا±سی چال میں آ جاتے ہیں