موسموں کی اپنی ترتیب ہوتی ہے اسی کے مطابق ان کے آنے جانے اور بدلنے کے اوقات ہوتے ہیں موسمیات کے ماہرین بھی بس اس قدر ہی جاننے لگے ہیں کہ کب کس وقت اور کتنی دیر کے لئے موسم کے عمومی رویے میں تبدیلی رونما ہو گی،یہ بھی غنیمت ہے ورنہ پہلے پہل تو ان کی پیشگوئیوں کا یار لوگ تمسخر اڑاتے تھے اس لئے جب جب خشک موسم کی پیشگوئی ہوتی تو یار لوگ یہ سوچ کرگھر سے چھاتا لے کر نکلا کرتے کہ آج ضرور بارش ہو گی لیکن اب ایسا نہیں اب تو موسمیات والے منٹوں اور گھنٹوں کے حساب سے موسم کے بارے میں بتادیتے ہیں اور اسی کے مطابق ہی یار لوگ اپنی نجی تقریبات اور سفر پر نکلنے کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ موسم میں کبھی کبھی اچانک بہت بدلاو¿ آ جاتا ہے جیسے ان جاڑوں میںسردی اور خنک ہوائیں معمول سے کچھ زیادہ ہی خبر لینے لگی ہیں جن کی بنا پر یار لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے، یہ اور بات کہ بجلی کو تو خیر نصیب ِ دشمناں ہوئے ایک یگ بیت گیا لیکن اب سوئی گیس نے بھی بجلی ہی کا چلن اپنا لیایعنی سوئی گیس آتی کم اور جاتی زیادہ ہے البتہ صاحبان ِ اختیار اس آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی گیس کے بھاری بل بھجوانے میں ذرا نہیں چوکتے، اس لئے یار لوگوں کی جان پر ان جاڑوں میں دہرا عذاب ہے کہ باہر جاتے ہیں تو دوپہر تک اور پھر سر شام سے رات گئے تک ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینے والی دھند کا راج ہوتا ہے اورگھر میں رہیں تو بھی ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا کیونکہ بجلی ہوتی نہیں اور گیس آتی نہیں کہ ہاتھ تاپ کر ہی خود کو یقین دلایا جائے کہ ” میں ہوں“ یوں تو پوری دنیا موسم کی اس تبدیلی کا شکار ہے تاہم باہر کی دنیا میں صورت حال اتنی گھمبیر نہیں ہوتی ایک تو وہاں گھر دفاتر شاپنگ مال ٹرمینل ، ائیر پوٹ اور گاڑیاں تک گرم ہوتی ہیں سردی کی شدت کا اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب پارکنگ لاٹ سے دفاتر یا مال کے دروازے تک چند گز کا فاصلہ طے کرنا ہو، برف باری کے موسم میں بھی لانگ بوٹ برف میں دھنستے جاتے ہیں مگر ایک دو منٹ میں دفتر گھر یا مال کا کوزی کوزی ماحول اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتا ہے، یہ سب محض اس لئے ہو تا ہے کہ باہر کی دنیا میں انسان کو ممکنہ حد تک سہولت فراہم کی جاتی ہے ، کسی شاپنگ مال میں چلے جائیں وہاں جگہ جگہ آرام دہ صوفے کرسیاں اور بنچ پڑے ہو تے ہیں جہا ں کسٹمر اور خصوصاً سینئر شہری گھوم پھر کر تھک جانے کی صورت میں بیٹھ جاتے ہیں ، کئی منزلہ سٹور ز میں خود کار سیڑھیاں(ایسکیلیٹرز) جگہ جگہ موجود ہیں اور پھر سامان یا ٹرالی ساتھ ہونے کی صورت میں سیڑھیوں سے اترنے میں دقت کے پیش نظر ساتھ ہی ایلی ویٹرز بھی ہیں یہ خود کار سیڑھیاں پشاور کے معروف شاپنگ مال میں بھی ہیں جن پر لوگ اترتے چڑھتے ضرور ہیں تاہم وہ سیڑھیاں تو ضرور ہیں مگر خود کار نہیں رہیں نہ جانے کب سے وہ ساکن ہیں اور ان پر سے اترنا یا چڑھنا عمومی سیڑھیوں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ ہے ، وہ جو سہولت کا عنصر ہے و ہ کہیں بھی نظر نہیں آئے گا،ان دنوں پشاور سمیت ملک کے بہت سے علاقوں میں دھند کا راج ہے ، پی ٹی وی کی ایک ریکارڈنگ کے بعد بازار کلاں سے ورسک روڈ تک جانا تھا تو ڈرتے ڈرتے اور رینگ رینگ کر جانا پڑا اور چند منٹ کا فاصلہ کوئی سوا ڈیڑھ گھنٹہ میں طے ہوا، اتفاق سے دوسرے ہی دن اسلام آباد میں دن ڈیڑھ بجے اپائنٹمنٹ تھی جس کے لئے ارادہ تھا کہ ساڑھے نو بجے تک رورانہ ہو جاو¿ں گا، لیکن صبح پھر وہی حال تھا برخوردار ذیشان نے ہمت کی اور دس بجے روانہ ہو گئے موٹر وے کا صبح پتہ کیا تو کھلی تھی جی ٹی روڈ تک پہنچتے پہنچتے کچھ کچھ روشنی ہو چکی تھی لیکن ٹریفک بہت بھی تھی اور بے ترتیب بھی تاہم بمشکل ٹال پلازا تک پہنچے تو گاڑیوں کا ایک ہجوم تھا شور تھا ہارن بج رہے تھے، معلوم ہوا موٹر وے بند ہے اور اب ایک بجے کھلے گا،تال پلاز ا سے یو ٹرن لے کر اب ساری گاڑیاں واپس مڑنے لگیں تو ہر ایک کو جلدی تھی خود ہم گھنٹہ بھر میں پہنچے تھے جی ٹی روڈ سے نکل جاتے تو کچھ وقت بچ جاتا ،رفعت علی سید بھی ساتھ تھیں انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جی ٹی روڈ پر ہی کوئی بتا دیتا کہ موٹر وے بند ہے تو سب کا وقت بچ جاتا، کوئی عارضی بورڈ ہی لگا دیتے ،اب یہاں پہنچے ہیں تو بتا رہے ہیں ہم ابھی یہ بات کر رہے تھے کہ یو ٹرن سے گاڑی مڑی تو سڑک کے درمیان دو پولیس اہلکار کھڑے گاڑیوں کو ایک طرف رکنے کا اشارہ کر رہے تھے ایک سائیڈپر گاڑیاں کھڑی تھیں ذیشان نے بھی گاڑی کھڑی کی اور اہلکار سے وجہ پوچھی ، اس نے کہا گاڑیوں کے کاغذات کی چیکنگ ہو رہی ہے، میں نے اس اہلکار سے کہا کہ میرے بھائی پہلے سے لوگوں کا اتنا وقت ضائع ہوا ہے اب اس وقت اس موسم اور ان حالات میں یہ آخر آپ لوگوں کو کیا سوجھی، کہنے لگے جی ناراض نہ ہوں افسران بالا کا حکم ہے ہم کیا کریں ۔ میں نے کہا آپ بھی ناراض نہ ہوں در اصل میرے پاس وقت نہیں ہے گاڑی کانمبر لکھ لیں میں کبھی فرصت میں خود آ جاو¿ں گا،پولیس والا کوئی بھلا سا آدمی تھا ،ہمیں جانے دیا ، لیکن نہ جانے اور کتنے لوگوں کا کتنا وقت صرف ہوا ہو گا، کوئی ایسا خود کار نظام نہیںکہ سڑکوں پر ہر موڑ پر اچانک ہی گاڑیوں کو روک کر ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال شروع کر دی جاتی ہے یہ تماشا آپ کو پشاور میں تو ہر روز کسی نہ کسی سڑک پر نظر آئے گا یار لوگ بھی عادی ہو چکے ہیں اس لئے کوئی اس کے خلاف احتجاج بھی نہیں کرتا، ویسے بھی شہریوں کو جب تک اپنے حقوق کا علم نہیں ہو جاتا یہ کھیل جاری رہے گا کیا شہر میںایسا کوئی نہیں جو سلیم کوثر کی زبان میں فقط زیر لب اتنا ہی کہہ دے۔
فضا پرندوں سے خالی ہو ، پیڑ سایوں سے
خراب اب اتنی بھی آب و ہوا نہ رکھی جائے