سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو جاری کیے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس پر چیف جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بنچ کا حصہ تھے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں و یوٹیوبرز کو نوٹس بھیجے جانے کے کے بعد پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پی اے ایس) اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی جے اے) کی جانب سے مشترکہ قرارداد کی منظوری اور دونوں تنظیموں کے نومنتخب نمائندوں کے ساتھ چیمبر میں ملاقات کے بعد کر مبینہ طور پر صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کا از خود نوٹس لیا تھا۔
اٹارنی جنرل، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے عہدیدار روسٹرم پر موجود ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے کیسز ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ چار درخواستیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کے پاکستان بار کے نمائندے موجود ہیں؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی اب ختم ہوچکی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ کی درخواست بعد میں دیکھیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قدرت کا نظام دیکھیں ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا، لیکن معاملہ 5 رکنی بنچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چلا گیا، 5 رکنی بنچ نے طے کیا کہ 184 تین کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہہ رہا ہوں کب تک ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے، ہم تو غلطیاں تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، یہاں تو بس موقع دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں سب غلطیاں اپنے سر پر اُٹھاؤں؟ بالکل نہیں اُٹھاؤں گا، مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو مجھ پر اُنگلی اٹھائیں، اگر اُنگلی نہیں اٹھائی تو میری اصلاح نہیں ہوگی، تنقید کریں گے تو میری اصلاح ہوگی۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ایف آٸی اے کی جانب سے سپریم کورٹ پر تنقید کے بارے میں صحافیوں کو جاری نوٹسز واپس لٸے جاٸیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشری کا مذاق اڑاٸیں گے تو ملک کا نقصان ہوگا، میں تنقید روکنے کے سخت خلاف ہوں، آزادی صحافت آئین میں ہے، میرا مذاق بھی اڑائیں مجھے کوئی فکر نہیں پڑتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلوں پر تنقید صحافی اور عام شہری بھی کر سکتے ہیں، فیصلوں پر ناجائز تنقید کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا، ٹی وی کیلئے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے، عدالتی فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں، زبان کا استعمال محتاط ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کا کیس ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر ساتھ ہی لگا دیں، اس وقت کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو ارشد شریف کے کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہوں۔
چیف جسٹ نے کہا کہ تنقید روکنے سے میرا کوئی فائدہ اگر حکومت کر رہی ہے تو اس کے سخت خلاف ہوں، حکومت صحافیوں کے خلاف کارروائی کرکے میرا نقصان کر رہی ہے، گالی گلوچ الگ بات ہے تنقید اصلاح کیلئے ہوتی ہے، فیصلے کو غیرآئینی اور غلط کہنا توہین عدالت نہیں ہوتا، اگرکوئی صحافی تشدد پر اکسائے تو الگ بات ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تنقید کی بنیاد پردرج ہونے والے مقدمات فوری واپس لئے جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو کچھ یوٹیوب کے تھمب نیل میں ہوتا ہے وہ ویڈیو میں نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی صرف پاکستان میں ہی ہوتی ہیں، انتہاء پسند سوچ کے خلاف حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی؟ خواتین کو ووٹ ڈالنے اور پولیو قطروں سے روکنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ خواتین کو ووٹ سے روکنے کا فتویٰ دینے والے کو کیوں نہیں پکڑا؟
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ میڈیا خود ضابطہ اخلاق بنانا چاہتا ہے تو بتائے کس کی مدد درکار ہے؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پریس ایسوسی ایشن کسی غلط خبر کی تردید کرتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہتک عزت کیس ہوجائے تو پچاس سال فیصلہ ہی نہیں ہوگا۔