آئی ایم ایف سے چھٹکارا ضروری ہے 

جب تک ہمارے ماہرین معیشت آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں نکالیں گے اور ہمارے ارباب بست و کشاد وطن عزیز کے امور کو اسکے وسائل کے اندر چلانے کا چلن نہیں اپنائیں گے‘ ہمیں کچکول لے کر اس عالمی مالیاتی ادارے کی بار بار منت سماجت کرنا پڑے گی اور فوری خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر ملک کے اندر جلد سیاسی استحکام نہیںآ تا تو آئی ایم ایف بھی کہیں ہمیں مالی امداد دینے سے اپنا ہاتھ کھینچ نہ لے قصہ کوتاہ سر دست سرنگ کے اس پار سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیںآ رہی‘ ان چند ضروری ابتدائی کلمات کے بعد حسب معمول دیگر اہم معاملات کا ذکر درج ذیل ہے۔ انسانی حقوق کانام نہاد علمبردار امریکہ اقوام متحدہ میں پیش ہونیوالی ہر اس قرارداد کو ویٹو کر رہا ہے جس میں غزہ کے اندر جنگ بندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے فلسطینیوں کو اسرائیل خون کے دریا میں نہلا رہا ہے اس کی منشا 
یہ ہے کہ غزہ کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے امریکہ میں کوئی فرد بھی امریک کاصدر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ جب تک امریکہ میں موجود یہودیوں کی مضبوط سیاسی لابی کی حمایت اسے حاصل نہ ہو جہاں تک اقوام متحدہ کا فلسطین کے بارے میں بے حسی کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر وہ اسی طرح سپر پاورز کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ کرتی رہی تو اس کا بھی انجام لیگ آف نیشنز سے زیادہ مختلف نہ ہوگا۔ 
ایران سے گیس حاصل کرنے کے واسطے اگر ہم نے فوری طور پر اپنے حصے کی 80 کلومیٹرز پر محیط پائپ لائن نہ بچھائی تو ایران عالمی عدالت انصاف میں ہمارے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے جو ہم پر بھاری جرمانہ لگا سکتی ہے۔ بقراط نے 400 سال قبل از مسیح علم طب پر جو کتابیں لکھیں ان میں شوگر کی بیماری کا ذکر نہیں یہ بیماری ایک ماڈرن بیماری ہے جس کا تعلق اس لائف سٹائل سے ہے جوآج کے انسان نے اپنا رکھا ہے مثلاً جنک فوڈ کا کھانا جیسے کہ پاستا‘ برگرز یا مشروبات کا کثرت سے استعمال اور پیدل چلنے سے گریز یا براﺅن آٹے کی روٹی کی جگہ میدہ کی روٹی کھانا وغیرہ۔ سینیٹر مشاہد حسین کے اس بیان میں کافی وزن ہے کہ قومی حکومت بنائی جائے‘ 8 
فروری کے الیکشن میں کئی چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں اور کئی آزاد امیدوار بھی‘ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ حصہ بقدر جثہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سب کو ایوان اقتدار میں نمائندگی ملنی چاہئے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن 29 فروری کو ختم ہو رہی ہے امید ہے کہ اب اس میں مزید چھوٹ نہیں دی جائیگی۔ اس ملک میں اب تک کوئی پبلک سروس کمیشنوں پر کسی غیر قانونی حرکت کرنے پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا اسلئے اس ملک کے عوام کو اس بات پر افسوس ہوا کہ اگلے روز سندھ پبلک سروس کمیشن کا پرچہ آﺅٹ ہونے پر کراچی میں شدید بد نظمی پر اسے ٹیسٹ ملتوی کرنا پڑا کسی منچلے نے خوب کہا ہے کہ ان حالات میں کوئی کیا کرے کہ جب آوے کاآوا ہی بگڑ جائے۔ ایک سروے کے مطابق 47 فیصد پاکستانی معیشت پر تشویش کا شکار ہیں اور اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہے۔