پشاور ہائی کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 51 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے، کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی، سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟
جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کررہاہے، بنچ میں جسٹس اعجاز انور،جسٹس عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے قاضی انور، اعظم سواتی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے نیر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور ایچ فاروق نائیک عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور کے دلائل جاری
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ کےدلائل جاری ہیں ، وکیل قاضی انور نے کہا کہ پی ٹی آئی کو نشان نہ ملنے کے باعث تمام امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا ، جس میں زیادہ تر نے الیکشن جیتا ، الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیارکی ۔
جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی ممبر الیکشن جیت چکا ہے؟ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی تو بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا، مخصوص نشستوں کی لسٹ کب جمع کی گئی؟
وکیل قاضی انور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سنی اتحاد کونسل کی کئی مخصوص نشستیں بنتی ہیں، کیا آئین میں ایسا کوئی آپشن ہے کہ ایک پارٹی کی مخصوص نشستیں دیگرپارٹیوں میں تقسیم کی جائیں، جس پرعدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کو نمائندگی دینے کے لیے کوئی فیصلہ کرے گا نا ؟ اگر کسی جماعت کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں تو ایسے تو یہ خالی رہ جائیں گی؟
دوران سماعت عدالت نے علی ظفر اور بابر اعوان کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لاکھوں کیسز دیکھنے پڑ رہے ہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے، ہم دوبارہ دوبارہ آپ کے لیے نہیں بیٹھ سکتے۔
وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کے استفسار پر جواب دیا کہ علی ظفر اڈیالہ جیل گئے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ نہیں آرہے تو آپ ہی دلائل دیں۔
قاضی انور نے تیاری کیلئے وقت مانگ لیا
سنی اتحاد کونسل کے وکیل قاضی انورایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست علی ظفر نے دائر کی مجھے وقت دیا جائے کہ دلائل تیارکرلوں، مجھے کہا گیا تھا کہ ہم آرہے ہیں آج نہیں آئے۔
عدالت نے کہا کہ نہ درخواست دی گئی سماعت ملتوی کرنے کی اور نہ ہی کوئی اور خبر، آج ایک ہی لارجر بنچ تشکیل دی گیا ہے، یہ تو عوام کے ساتھ زیادتی ہے، جس پر قاضی انور نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کل سنا جائے، جس پر عدالت نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ کل کیس کو سنیں۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جس پر عدالت نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہمی کا طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں موجود نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں مکس ممبران کی نمائندگی کا قانون ہے، اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے، سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع کرانا پڑتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ لسٹ کا طریقہ کار قانون میں واضح نہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت تصور کیا جارہا ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے متعدد سیکشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت ہے یا نہیں یہ دیکھنا ہے، قانون کے مطابق جس سیاسی پارٹی نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا یا کوئی سیٹ جیت جائے تو مخصوص نشستیں ان کو ملیں گی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کے مطابق سنی اتحاد کونسل ایک سیاسی جماعت نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جنرل سیٹیں جیتنے کے تناسب پر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 51 ڈی پر بحث کریں تاکہ واضح ہو جائے، کیا سنی اتحاد کونسل ایک پارٹی ہے یا نہیں؟ کیا صدارتی، سینیٹ، سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے؟
عدالت نے مزید سوال اٹھایا کہ کیا سنی اتحاد کونسل اپوزیشن لیڈر بناسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون ہے کہ سیاسی جماعت کو کم از کم جنرل الیکشن میں سیٹ جیتنا لازمی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا ایسا کیس بھی سامنے نہیں آیا ہے، یہ کیس اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملے. گی جس کا پارلیمنٹ میں نمائندگی ہو۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک اور قانون بھی ہے کہ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، پارلیمنٹ میں نمائندگی نہ رکھنے والے پارٹی میں اگر کوئی آزاد امیدوار چلا جائے تو کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ لسٹ جمع کرنا کسی سیاسی جماعت کے لیے لازمی ہوتا ہے، لسٹ میں اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن الیکشن سے قبل لسٹ جمع کرنا لازمی ہوتی ہے، مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کو پھر شائع کیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ووٹر مخصوص نشستوں کی لسٹ کو دیکھتے ہوئے کسی امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیتا ہے، جس پر عدالت نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی جماعت مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہ کریں؟ اگر وہ جماعت پاکستان کی بڑی جماعت ہو تو الیکشن ایکٹ کیا کہتا ہے اس معاملے پر؟
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ہر سیاسی جماعت الیکشن سے قبل لسٹ جمع کرتی ہے کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ یہ مخصوص نشستیں بھی حاصل کریں گے، کسی جماعت کو لسٹ کے مطابق مخصوص نشستیں ملیں گی، اگر کوئی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو مخصوص نشستوں کے حصول سے انہیں نکالا جائے گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جنرل سیٹوں کے علاوہ مخصوص نشستوں کا سوچ بھی نہیں سکتے، مزید کہا کہ رولز کے مطابق سیٹ جیتنے والی پارٹی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ پہلے جمع کرانی ہوتی ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک جماعت 12 اور دوسری 18 جنرل نشستیں جیت جائے، آزاد امیدوار 12 جنرل نشستیں جیتنے والی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلے تو پھر کیا ہوگا، اس صورت میں تو وہ پارٹی آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد بڑی پارٹی بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پھر بھی امیدواروں کی لسٹ جمع کرانے کی شرط پوری تو نہیں ہوگی۔
عدالت نے کہا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں، اگر آزاد امیدوار کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلے تو کیا اس کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دی جاسکتی ہیں لیکن اگر پارلیمان میں اس پارٹی کی کوئی نمائندگی ہو، اس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے دلال مکمل کر لیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندرمہمند کے دلائل جاری
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کے دلائل کو سپورٹ کرتا ہوں، سنی اتحاد کونسل سیکشن 51 ڈی کے مطابق ایک سیاسی جماعت نہیں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جاسکتیں، مخصوص نشستوں کے امیدوار پورے صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں، مخصوص نشستوں کے لیے 3 مختلف سیکشنز کا پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ اگر کوئی جماعت اس میں ایک بھی پورا نہ کریں تو وہ سیاسی جماعت تصور نہیں ہوگی، قانون کے مطابق مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملے گی جو الیکشن میں حصہ لے گی۔
انہوں نے مزید دلائل دیے کہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والی جماعت کو ہی مخصوص نشستیں ملیں گی، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا، اگر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تو اس کا کیا مطلب ہوا، کسی جماعت کو تب ہی مخصوص نشستیں ملیں گی جب کم از کم ایک جنرل نشست جیت جائے
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51 (ڈی) اور سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک جنرل نشست ہوگی تو ان کو ملے گی، کاغذات نامزدگی کے آخری دن سے پہلے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی دینا ہوتی ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کی کوئی جنرل نشست نہیں ہے اور نہ مخصوص لسٹ پہلے جمع کروائی ہے، متعلقہ 3 سیکشنز اور شرائط پورے نہ کیے جائیں تو ہر صورت یہ امیدوارآزاد تصور ہونگے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر قانون میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، لیکن ابھی تک جو تشریح موجود ہے اس سے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے دائر درخواستیں سماعت کے لئے مقرر ہوئی تھیں۔
گزشتہ سماعت پر لارجر بینچ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاونت کے لئے طلب کیا ہے، عدالت نے چھ آئینی سوالات اٹھائے ہیں۔
عدالت نے آئینی سوالات پر اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کررکھی ہے۔