ایک اچھی خبر آئی ہے کہ حکومت نے رواں ما لی سال کے حساب میں پہلی بار بچت کی طرف تو جہ دی ہے اس سلسلے میں حکومت نے اراکین اسمبلی کو دیئے جا نے والے صوابد یدی فنڈ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے، نیز یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ بہت جلد اراکین اسمبلی اور سر کاری عہدوں پر رہنے والے سیا ستدانوں کے ساتھ افسروں کے اثا ثے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھے جا ئینگے عام رائے یہ ہے کہ اگر حکومت نے اراکین اسمبلی کو ملنے والے صوابدیدی فنڈ ختم کر دیئے تو یہ اس دور کا سنہرا کارنا مہ ہو گا‘ ایک رکن اسمبلی کو دس کروڑ روپے ہر سال ملتے ہیں‘ اگر ملک کے گیارہ سو اراکین اسمبلی کو پانچ سال میں ملنے والے فنڈ کا حساب کیا جا ئے تو اس کی کل ما لیت آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے ملنے والے سودی قرض کی مجموعی ما لیت سے دگنی ہوجا تی ہے۔خبر میں بتا یا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے مجوزہ تین سالہ قرض پرو گرام کی منظوری کیلئے مطا لبات کی جو فہرست حکومت پا کستان کو پیش کی گئی ہے اس فہرست میں ارا کین اسمبلی کے صوابدیدی فنڈ کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی شامل ہے‘ ہماری حکومت بادل ناخواستہ اس شرط کو پوری کرے ”بادل ناخواستہ“ اسلئے لکھنا پڑا کہ اس میں اکثر اوقات سب سے زیا دہ ما ل سرکاری بنچوں پر بیٹھنے والے اراکین اسمبلی کو ملتا ہے‘اس کا بڑا حصہ مر کزی اور صو بائی وزراء کو ملتا ہے‘ غریب غر باء کو کچھ بھی نہیں ملتا‘ آئی ایم ایف کا دیا ہوا قرض اوپر، اوپر ہوا میں اڑا یاجا تا ہے اور سود سمیت اصل زر کی ادائیگی غریب غر باء پر ٹیکس لگا کر کی جاتی ہے تجزیہ نگاروں اور ٹیکس گزار وں کو تعجب ہوتا ہے کہ اب تک پا کستان میں سرکاری خزانے کے پیندے کی سیوریج نا لی سے بہنے والا یہ سرمایہ ہمارے مہر بان
آئی ایم ایف کو بھلا کیوں نظر نہیں آیا تھا، بعض خوش فہم دوستوں نے آئی ایم ایف کے بزر جمہروں کو مشورہ دینا شروع کیا ہے کہ لگے ہاتھوں پا کستان کے سرکار ی خزا نے کو مزید بچت دی جائے‘ مثلاً 5لا کھ روپے سے لیکر 75 لاکھ روپے تک تنخوا ہ لینے والے سرکاری حکام کو سالا نہ 6کھر ب روپے کا تیل اور گیسں مفت ملتا ہے مزید 6کھر ب روپے کی بجلی مفت ملتی ہے اس کو بھی بند کر دیا جا ئے‘ وزیروں کے پروٹوکول پر ہر سال ایک کھر ب روپے کا خر چہ آتا ہے‘ یہ رقم آئی ایم ایف کے قرض کی ایک قسط کے برا بر ہے، بزر جمہروں کا یہ بھی مشورہ ہے کہ پاکستان میں بڑے بڑے گھروں کا سرکاری خرچہ ہر سال قومی خزا نے کا دس کھر ب روپے کھا جا تا ہے‘اس کا کوئی فائدہ نہیں، اس خر چے کی کوئی ضرورت نہیں، چاروں صوبوں کے بڑے بڑے ہاؤس با لکل فضول ہیں، قومی مفاد کا کوئی کام ان سے وابستہ نہیں‘ ان
کا عملہ، ان کے بجلی، گیس اور تیل کا خر چہ قومی خزانے پر بو جھ ہے‘اس طرح ہمارے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کا حجم بھی واشنگٹن ڈی سی کے وائٹ ہاؤس سے دس گنا زیادہ ہے‘ کسی خلیجی ریاست کے بادشاہ کا ذاتی خرچہ بھی پا کستانی حکمرانوں کے بر ابر نہیں، آئی ایم ایف کو قرض کی نئی قسط جا ری کر تے وقت پاکستان کی حکومت کو بتانا چاہئے کہ بڑے بڑے گھروں کی نجکاری کر کے عا لیشان ہو ٹل بنا ؤ اور قرضوں کے بو جھ کو ہلکا کرو، مشورہ دینے والوں نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ پا کستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں میں ملازمین کا حجم ضرورت سے 100گنا زیا دہ ہو گیا ہے‘ ہر آنے والی حکومت اپنے سیا سی کار کنوں کو بھرتی کرتی ہے جہاں ایک ملازم ہونا چاہئے وہاں 100بندے بٹھائے گئے ہیں‘ بہتر ہو کہ ترقی یا فتہ مما لک کی طرح آفیسر خود اٹھ کر چا ئے اور پا نی پینے کی زحمت کرے‘ نچلی سطح پر کام کمپیو ٹر سے لیا جا ئے تو قومی خزا نے پر بو جھ کم ہو گا‘ یہ ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت ایجنڈا بنے گا‘جس کی مدد سے پا کستان موجو دہ بحرا نوں سے نکل سکے گا۔