صوبوں کو تفویض کردہ شعبوں سے متعلق وفاقی ریگولیٹری ادارے ختم کرنے کا امکان، قانون سازی کا عمل رواں ماہ شروع کیے جانے کی توقع

وفاقی حکومت صوبوں کو تفویض کردہ شعبوں سے متعلق ریگولیٹری اداروں خاص طور پر صحت اور تعلیم کو جلد ہی ختم کر سکتی ہیں، اسی طرح تمام وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولیات اور ایوی ایشن اور میری ٹائم ڈویژن کو وزارت دفاع کے ساتھ ضم کر سکتی ہے، جو آئندہ متوقع ری اسٹرکچرنگ اور کفایت شعاری مہم کا حصہ ہے۔

حکومت سخت وفاقی بجٹ اور توانائی کے بلند اخراجات پر تنقید کی زد میں رہی ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 7 ارب ڈالر کا معاشی بیل آؤٹ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

قانون سازی کا عمل رواں ماہ شروع کیے جانے کی توقع ہے، کچھ تبدیلیوں کے لیے وفاقی اور صوبائی قوانین میں تبدیلیوں کو فعال کرنے کی ضرورت اور ایک نیا ڈویژن ’سوشل سیکٹر افیئرز‘ تشکیل دیا جائے گا۔

وزیر اعظم کی ہدایات کے تحت کفایت شعاری اقدامات کے حوالے سے پچھلے مہینوں سے متعدد کمیٹیاں کام کر رہی ہیں، ان میں سے بہت سے اقدامات کے آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت اور عالمی بینک کے متعلقہ پبلک سیکٹر ری اسٹرکچرنگ پروگرام کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔

ایک سینیئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ کفایت شعاری اور ری اسٹرکچرنگ کے پہلے مرحلے کا باضابطہ اعلان خود وزیر اعظم کابینہ کی منظوری سے کریں گے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ تقریباً واضح ہو گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تحت تفویض کردہ شعبوں کی مختلف ریگولیٹری کونسلز کی مرکز میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، فیڈرل فارمیسی کونسل اور ہائر ایجوکیشن کمیشن وغیرہ جیسی ریگولیٹری کونسلز کی عمارتوں سمیت عملہ اور اثاثہ جات مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہو جائیں گے، کچھ صوبوں میں پہلے سے ہی اسی طرح کی آرگنائزیشنز چل رہی ہیں اور ان کے لیے وفاقی فنانسنگ اگلے مالی سال سے ختم ہو جائے گی۔

صوبائی حکومتیں نہ صرف ان ریگولیٹرز بلکہ ان کے دائرہ اختیار میں آنے والی آرگنائزیشن، منسلک محکموں اور یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں کی بھی فنانسنگ کریں گی، اس کے بعد وفاقی یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو سینیٹ اور سنڈیکیٹس کے موجودہ ڈھانچے کی بجائے امریکا کی طرز پر منافع اور مارکیٹ سے منسلک کرنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر نجی شعبے میں کارپوریٹ بورڈز کے ذریعے چلایا جائے گا۔

تعلیمی عملے کے علاوہ وفاقی یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں میں عملے کی تقرری پر مکمل پابندی ہو گی، جنہیں یکمشت معاوضے کے پیکج پر رکھا جائے گا اور وفاقی خزانے پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔

ذرائع نے بتایا کہ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے پولیس جیسی چند آپریشنل آرگنائزیشن کے علاوہ وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ختم کر دی جائے گی، تاہم ٹرانسپورٹ منیٹائزیشن کا دائرہ وسیع کیا جائے گا کیونکہ مختلف اسٹڈیز سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاقی وزارتوں کے تقریباً تمام افسران ٹرانسپورٹ کی سہولت کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کر رہے ہیں۔

سب سے اوپر والے نہ صرف ہر ماہ بھاری ٹرانسپورٹ الاؤنس حاصل کر رہے تھے بلکہ سرکاری ٹرانسپورٹ کا استعمال بھی کر رہے تھے۔

حکام نے بتایا کہ وزارت صحت کو ختم کر دیا جائے گا اور ایک نئے ڈویژن کے تحت سوشل سیکٹر افیئرز کے نام سے ایک ونگ قائم کیا جائے گا، یہ نیا ڈویژن بین الاقوامی پہلوؤں اور صحت اور آبادی کی بہبود کے بین الصوبائی رابطہ کاری سے متعلق معاملات کو نمٹائے گا۔