چھبیسویں آئینی ترمیم کا پہلا شاخسانہ، حلیف حریف بن گئے، حکومت جمیعت علمائے اسلام آمنے سامنے آگئے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جو حکومت کی جانب سے آئین کی 26 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے ایک انتہائی سرگرم پرجوش اور طاقتور حلیف کے طور پر سامنے آئے تھے اور صدر آصف علی زرداری وزیراعظم شہبازشریف وزیر داخلہ وزیر قانون اور دیگر حکومتی زعماء ان کا تعاون اور رہنمائی حاصل کرنے کیلئے ان سے مسلسل رابطوں میں رہتے تھے۔
اسلام آباد میں مولانا کی اقامت گاہ کئی ہفتوں تک ملک کے اہم سیاستدانوں اور ملکی اور غیر ملکی نمائندوں کی آماجگاہ بنی رہی۔
پھر 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر ایوان میں ان تمام اکابرین کی باہمی ہم آہنگی اور ستائش باہمی کے مناظر دیدنی تھے اور اس سارے عمل میں مولانا فضل الرحمان اپنی پیرانہ سالی اور شب و روز کی سیاسی مشقت سے اتنے تھک چکے تھےلیکن صرف ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر صورتحال بدل گئی۔
جبکہ آج بھی وہی حکومت ہے اسی حکومت کے صدر، وزیراعظم اور اسی کابینہ کے ارکان کی ٹیم جو جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے مدارس بل کی منظوری کے حوالے سے حلیف کی بجائے حریف کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔
اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمان بھی ان کے سامنے خم ٹھوک کر کھڑے ہیں پھر محض چند ہفتوں میں صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ایک دوسرے کو بیانات کی شکل میں پرانی باتیں یاد کرا رہے ہیں۔
بلکہ مولانا طاہر اشرفی نے تو کھلے لفظوں میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ کو چیلنج بھی کر دیا کہ دینی مدارس کی افرادی طاقت مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں سے دیگر مدارس کے پاس کہیں زیادہ ہے۔