ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے والے 5 ہزارپاکستانی یورپ میں لاپتہ

ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے والے پانچ ہزار پاکستانی یورپ میں لاپتہ ہو گئے ہیں ، خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کے باعث انسانی اسمگلرز کا دھندہ کھلے عام جاری ہے۔

بیرون ملک بھجوانے کے جھانسے میں لا کر انسانی اسمگلرز نے ہزاروں مائوں کے جگر گوشے اور ہزاروں خواتین کے سہاگ چھین لئے ہیں لیکن ان اسمگلروں کو انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔

6 سال پہلے احتشام نامی نوجوان 20 سال کی عمر میں چھوٹا سا بیگ لے کر اپنی بیوہ ماں کو یہ بتا کر گھر سے نکلا تھا کہ وہ دفتر میں میٹنگ کے لیے جا رہا ہے تاہم اس کی بیوہ ماں بیٹے کے انتظار میں آج بھی گھر کی دہلیز کی طرف دیکھ رہی ہے لیکن بیٹا زندہ بھی ہے یا نہیں یہ نہیں معلوم۔

احتشام کی طرح اپنی ماؤں کو تسلی دے کر یا بڑے بڑے سہانے خواب دکھا کر گھروں سے نکلنے والے پانچ ہزار سے زائد نوجوان آج تک اس سفر سے نہیں لوٹے۔

تحقیقاتی اداروں، گرفتار انسانی اسمگلروں اور زندہ بچ جانے والوں سے جمع کی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں زمینی راستوں پر سفر کرتے ہوئے یورپی ممالک کی طرف جانے والے پاکستانیوں میں سے تقریباً 5 ہزار نوجوان ایسے ہیں جن کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

ان گمشدگان میں سے اکثر کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ سمندر میں غرق ہو چکے ہیں، یا ایران اور ترکی میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں یا پھر کال کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا ہے۔

ہم انویسٹی گیٹس نے ایسی پانچ مائیں تلاش کی ہیں جو خدشے اور اُمید کیساتھ اپنے جگر گوشوں کے انتظار میں ہیں۔ وہ مائیں زندہ تو ہیں لیکن ان میں زندگی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کے باعث انسانی اسمگلرز کا دھندہ کھلے عام جاری

گجرات شہر کے پرانے محلے غازی آباد کی اماں کنیز بی بی جو تین بیٹوں کی بیوہ ماں ہیں ان کا ایک بیٹا سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا ، کافی عرصہ پہلے معذور ہوکر واپس لوٹ آیا۔ دوسرا بیٹا چھ سال سے لاپتہ ہے جبکہ چھوٹا بیٹا روزی روٹی کمانے کیساتھ ساتھ غائب ہو جانے والے بھائی کی تلاش میں بھی مصروف ہے۔ وہ آئے روز تارکین وطن کے ساتھ ہونے والے حادثوں کی تفصیلات جمع کرتا ہے کہ کہیں اُس کا گمشدہ بھائی ہلاک شدگان یا زخمیوں میں شامل تو نہیں؟ لیکن ماں کو کچھ بتانے کے بجائے صرف تسلی دیتا رہتا ہے۔

گجرات شہر کے ساتھ ملحق دھارووال  گاؤں میں بھی تین ایسی مائیں ہیں جو روزانہ جیتی مرتی ہیں کیونکہ اِن تینوں کے بیٹے لاپتہ ہیں۔ 25 برس کے نوجوان ذیشان علی کی والدہ شمع بی بی کی کہانی سن کر کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔

22 سالہ علی مرتضی کی ماں غزالہ بی بی کی کہانی میں سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ علی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹیاں جانتی ہیں کہ ان کا باپ زندہ نہیں لیکن اِن کی دادی اِنہیں یہی کہتی ہے کہ تمھارے بابا نے کمیٹی ڈال رکھی ہے اور کمیٹی نکلنے کے بعد بہت سے پیسے لے کر پاکستان آ جائے گا۔

بشری بی بی نے اپنے 24 سالہ بیٹے عثمان ظفر کی یورپ جانے کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور خاندان کی ملکیتی زمین، اپنا زیور بیچ دیا تو بھی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے درکار پیسے کم تھے۔ بشری بی بی کے شوہرے رشتہ داروں سے اُدھار لیا اور 24 لاکھ روپے ایجنٹ کو ادا کیے۔

انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چار ممالک تک پھیلا ہوا ہے ، تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف

چوہدری ذکا اللہ سندا پاکستانی نژاد اٹالین شہری ہیں جو اٹلی میں پاکستانی تارکین وطن کی فلاح و بہبود کے کام سے وابستہ ہیں۔ چوہدری ذکا اللہ نے ہم انوسٹی گیٹس کو بتایا کہ میرا کام بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں پریشان حال والدین کے فون آتے ہیں کہ اُن کے بیٹوں کی کوئی اطلاع نہیں اور ہم پریشان ہیں۔ میں وہاں ایسے پاکستانیوں کی تلاش میں بھی مدد کرتا ہوں اور پھر اگر خدانخواستہ کوئی پاکستانی وہاں وفات پا جائے تو اس کی تکفین و تدفین کا بندوبست کرتا ہوں۔ بعض اوقات میتوں کو پاکستان لانا پڑتا ہے اور یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

ہم انویسٹی گیٹس ٹیم کو موصول تحقیقاتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ کے ایک بڑے بین الاقوامی نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے، یہ انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چار ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔

مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے نیٹ ورک کے چالیس بڑے اسمگلرز کیخلاف کارروائی کی سفارش کر دی ہے، سینئیر پولیس افسر احسان صادق کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ پچھلے سال وزیراعظم دفتربھجوائی تھی، وزیراعظم سیکرٹریٹ سے منظوری کے بعد رپورٹ پر عمل درآمد کیلیے ایف آئی اے کو بھجوا دی گئی تھی، نیٹ ورک اور ان سے جڑے تمام انسانی اسمگلرز کی تفصیلات بھی ایف آئی اے کے حوالے کر دی تھیں۔

برطانیہ میں موجود آصف دولتانہ نامی انسانی سمگلروں کے سرغنہ کیخلاف مقدمے کی سفارش کی گئی تھی، دولتانہ کے پاکستان میں موجود سہولت کارچوہدری ساجد، الطاف حسین اور احمد کیخلاف لاہورمیں مقدمات درج ہوگئے تھے، ملزمان محمد اسلم اور فاروق حسین نامی انسانی اسمگلرز لبیا میں نیٹ ورک چلا رہے تھے، انسانی سمگلرزمحمد ممتازاور مشتاق احمد لبیا میں مقیم اسلم اور فاروق کے نیٹ ورک کیلیے کام کر رہے تھے، محمد ممتازاور مشتاق حسین کیخلاف گجرات میں مقدمہ درج کیا گیا۔

اس کے علاوہ کلیم ،مقصود ، حسین علی اوراسلم میو اٹلی میں انسانی سمگلنگ کا نیٹ ورک چلارہے تھے، رپورٹ میں ایف آئی اے کے ملوث اہلکاروں کیخلاف بھی کارروائی کی سفارش کر دی گئی ہے، ایف آئی اے کے امیگریشن پر تعینات تمام اہلکاروں کے اثاثوں کی چھان بین کرنے کی سفارش کی گئی تھی لیکن آج تک اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل نہیں ہوا۔کمیٹی کے سربراہ احسان صادق نے اس بات کی ہم انویسٹی گیٹس کو تصدیق کی ہے۔

سینکڑوں افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب بھیجنے والا انسانی اسمگلنگ گینگ کا سرغنہ دوست محمد پشاور سے پکڑا گیا تھا، ملزم پر سینکڑوں افغان شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ دلوانے کا الزام تھا ، ملزم شہریت دلوا کرپاکستان سے باہر انسانی اسمگلنگ کرتا تھا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق یونان میں ڈوبنے والے پاکستانیوں کے واقعے میں ملزم کا کردار تھا، ملزم نے  نادرا اور پاسپورٹ ملازمین کے ساتھ مل کرایک بڑا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔

جون 2023 میں یونان میں کشتی کے ہولناک حادثے میں 209 پاکستانی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ جس پر حکومت نے ایک جے آئی ٹی بنائی تاہم اس کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکی۔ ہم انویسٹی گیٹس ٹیم نے اپنے ذرائع سے اس اہم ترین تحقیقاتی رپورٹ میں انسانی اسمگلروں کے بارے میں کیے گئے انکشافات اور کمیٹی کی سفارشات حاصل کر لی ہیں۔

ایف آئی اے اسلام آباد کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر وسیم عباس بتاتے ہیں کہ ایک نیا رحجان بھی سامنے آ رہا ہے کہ کس طرح انسانی اسمگلرز تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کو جھانسہ دے کر ملائشیا لے جاتے ہیں اور پھر اُن کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

مصدقہ اطلاعات و اعداوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ برس میں پانچ  ہزار پاکستانی ایران،ترکی،لیبیا اور شام کے شہروں، دیہات، ویرانوں اور نجی عقوبت خانوں میں قید ہیں۔ اِن میں کچھ ایسے ہیں جن کا اپنے والدین اور رشتہ داروں سے صرف اس حد تک رابطہ ہے کہ اُن کو سرحد پار کروانے والے انسانی اسمگلر اِن کے ساتھ اس لیے وقفے وقفے سے رابطہ کرتے ہیں کہ مزید پیسے لے کر اُن کو قید سے رہا کروالیا جائے یا کسی اگلی منزل کے لیے دوسرے انسانی اسمگلروں کے حوالے کیا جا سکے۔

ایف آئی اے نے دعوی کیا ہے کہ لیبیا کشتی حادثے میں ملوث ریڈ بک کا بدنامہ زمانہ اشتہاری ملزم گرفتار کیا گیا ہے، اشتہاری ملزم محمد سلیمان کے خلاف 7 سے زائد مقدمات درج تھے، ملزم نے متاثرین کو یورپ بھجوانے کے نام کروڑوں روپے ہتھیائے۔ ملزم نے 7 متاثرین سے فی کس 24 لاکھ روپے وصول کئے۔ملزم نے گینگ کے دیگر ملزمان کی مدد سے متاثرین کو پہلے لیبیا براستہ مصر اور دبئی بھجوایا۔

یونان کشتی حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت پر بننے والی کمیٹی کی سفارشات پرعمل درآمد نہ ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے، احسان صادق کمیٹی کی سفارشات پرعمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات جاننے کیلیے انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے، اینٹی ٹیرایزم اتھارٹی کے چئیرمین مشتاق سکھیرا انکوائری کمیٹی کے سربراہ ہونگے، کمیٹی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایف آئی اے اہلکاروں کیخلاف کارروائی نہ ہونے کی وجوہات جانے گی۔

اس کے علاوہ انسانی اسمگلنگ سے متعلق قومی اوربین الاقوامی قانون سازی پر بھی سفارشات دے گی، ہم ایوسٹی گیٹس ٹیم نے یونان کشتی حادثے رپورٹ پرعمل درآمد نہ ہونے کی نشاندہی کی تھی، کمیٹی انسانی سمگلنگ حادثات اور ان پر رپورٹ کا آڈٹ بھی کرے گی۔