عالمی سطح پر انٹرنیٹ اسپیڈ میں پاکستان 97ویں نمبر پر

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی آئی ٹی میں اہم انکشاف ہوا ہے کہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 97 ویں نمبر پر ہے، اجلاس کے دوران سینیٹر کامران مرتضٰی اور چیئرمین پی ٹی اے میں گرما گرمی ہوگئی۔ جے یو آئی سینیٹر نے سوال اٹھایا کہ انٹرنیٹ بند کرنے کا کون سا قانون ہے؟، آپ قانون کے بغیر کسی علاقے میں انٹرنیٹ کیسے بند کرسکتے ہیں؟، چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا ہے کہ انٹرنیٹ حکومت بند کراتی ہے، ہم نہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وزارت آئی ٹی اور پی ٹی اے کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش پر بریفنگ دی گئی، چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا پی ٹی اے کو روزانہ سوشل میڈیا مواد کی 500 شکایات موصول ہوتی ہیں، پی ٹی اے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مواد بلاک کرنے کی درخواست کرتا ہے۔ 80 فیصد مواد بلاک کردیا جاتا ہے۔

سینیٹر کامران مرتضٰی نے پوچھا کہ  پیکا ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ کسی خاص علاقے میں انٹرنیٹ بلاک کیا جاسکتا ہے۔ ممبر لیگل وزارت آئی ٹی نے اعتراف کیا کہ ایکٹ میں واضح کسی خاص علاقے کا نہیں لکھا۔ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ رولز میں لکھا ہے کہ وزارت داخلہ پی ٹی اے کو ہدایت دے سکتی ہے، اگر یہ غلط ہے تو حکومت ہم سے 9 سال سے انٹرنیٹ کیوں بند کروارہی ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم تباہ، کاروبار تباہ، لائبریرز کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے ہے جو روک دی گئی، یہ اقدام ان لوگوں کو سیاسی مقاصد کیلئے جہالت میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔

اسپیشل سیکریٹری نے بریفنگ میں بتایا کہ حکومت کہے کہ کسی علاقے میں تمام آن لائن مواد کو بلاک کرنا ہے تو تمام آن لائن مواد انٹرنیٹ بند کرکے ہی بند کیا جاسکتا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے  متعلقہ وزارتوں کے حکام کو طلب کرلیا۔ پلوشہ خان نے کہا کہ ہم نے وزارت قانون و انصاف اور وزارت آئی ٹی کو بلایا ہے ہمیں تو سمجھ نہیں آیا۔

چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ وی پی این کی بندش کے فیصلے پر انہوں نے عملدرآمد نہیں ہونے دیا، ابھی تک وی پی این سروس فراہم کرنیوالی صرف دو کمپنیوں نے لائسنس کیلئے درخواست دی ہے، امید ہے جلد مزید درخواستیں آئیں گی۔