جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف سے مدارس رجسٹریشن پر صوبوں میں قانون سازی کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کر دی۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور صوبوں میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی کے حوالے سے بات چیت کی۔
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم سے مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے صوبوں میں قانون سازی کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی، جس پر شہباز شریف نے سربراہ جے یو آئی کو قانون سازی کے لیے حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے صوبوں میں قانون سازی کے لیے وزرائے اعلیٰ سے رابطہ کروں گا۔
یاد رہے کہ چند روز قبل صدر پاکستان آصف علی زرداری نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے سوسائٹی ایکٹ رجسٹریشن بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے بل کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔
نئے قانون کے مطابق مدارس کو یہ حق حاصل ہو گا کہ مدارس کو سوسائٹیز رجسٹریشن یا وزارت تعلیم کے تحت خود کو رجسٹر کرائیں۔
قومی اسمبلی کے ترجمان کے مطابق سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا، مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا گیا ہے۔
مدارس بل کیا ہے؟
20 اکتوبر 2024 کو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جس میں ذیل میں درج شقیں شامل کی گئی ہیں۔
بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے، بل میں متعدد شقیں شامل ہیں۔
بل میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔
اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔
شق 21۔اے میں کہا گہا ہے کہ وہ دینی مدارس جو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نافذ ہونے سے قبل قائم کیے گئے ہیں، اگر رجسٹرڈ نہیں تو انہیں 6 ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
شق بی میں کہا گیا ہے کہ وہ مدارس جو اس بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جائیں گے انہیں ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی، بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
بل کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانی ہوگی۔
بل کی شق 3 کے مطابق کہ ہر مدرسہ کسی آڈیٹر سے اپنے مالی حساب کا آڈٹ کروانے کا پابند ہوگا، آڈٹ کے بعد مدرسہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کرانے کا بھی مجاز ہوگا۔
بل کی شق 4 کے تحت کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔
تاہم مذکورہ شق میں مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قران و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں ہے۔
بل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔
بل کی شق 6 میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی بھی مدرسے کو اس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔
بل کی شق نمبر 7 کے مطابق ایک بار اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی دینی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مذکورہ شق میں دینی مدرسے سے مراد مذہبی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم شامل ہے یا کسی بھی دوسرے نام سے پکارے جانے والا ادارہ جس کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو۔