پشاور میں بیوہ خاتون کی خود سوزی: دو قیمتیں جانیں بابو سسٹم کی بھینٹ چڑھ گئیں

یونیورسٹی ٹاون پشاور کے علاقے افضل آباد میں سات فروری کی شام چھ بجکر 15 منٹ پر محلے میں اچانک شور نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کچھ لوگ محلے کی مین گلی میں نکلے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ اہل علاقہ نے دیکھا کہ حوالدار خان کی بیوہ رفعت بی بی ایک ہاتھ میں پٹرول کی بوتل تو دوسرے ہاتھ میں کرسی لئے ایک بچے کے ساتھ گھر سے باہر آئیں اور خود پر اور بچے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ اسی دوران محلہ دار خاتون نے رفعت بی بی سے بچہ چھین کر اسے آگے لگانے سے منع کیا لیکن وہ نہ مانیں اور ایک گھر میں جا کر خود کو آگ لگا دی۔ شعلوں میں لپٹی رفعت بی بی اور یہ سارا منظر گلی میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا۔ رفعت بی بی کو جھلسی حالت میں فوری اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکیں اور 11 فروری کی صبح وفات پا گئیں۔

رفعت بی بی کے لواحقین اور ہمدردوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی چوک میں لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کیا تو خاتون کی خودسوزی کا واقعہ میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ بعد ازاں پولیس اور انتظامیہ سے مذاکرات کے نتیجے میں خاتون کے لواحقین نے ٹاؤن کے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ہارون سلیم کے خلاف قانونی کارروائی کی شرط پر احتجاج ختم کردیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اُسی رات رفعت بی بی کی تدفین کے بعد لواحقین نے اے اے سی ٹاون سے بغیر کسی قانونی کارروائی اور شرائط کے صلح کرلی۔

گھر کا اصل مالک
قصہ کچھ یوں ہے،صدر پاکستان فاروق لغاری کے دور میں پشاور سی این ڈبلیو میں تعینات ایس ڈی او رفیق بنگش نے ایک پل بنانے کا ٹھیکہ لیا، لیکن ان کا بنایا گیا پل افتتاح سے پہلے ہی ٹوٹ گیا، جس کے نتیجے میں رفیق بنگش پر بدعنوانی کا مقدمہ بنا تو رفیق بنگش دبئی فرار ہوگئے۔

وقت کا پہیہ گھوما اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو نیشنل اکاؤنٹبلیٹی بیورو ”نیب“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ ملک بھر سے بدعنوانی کے سارے مقدمات نیب کے حوالے کر دئیے گئے جس میں رفیق بنگش کا کیس بھی شامل تھا۔ رفیق بنگش کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا، جہاں اُن پر مقدمہ چلا۔ دوران تفتیش رفیق بنگش نے اپنی ساری جائیداد کی تفصیلات نیب کو بتا دیں، جس میں یونیورسٹی ٹاؤن افضل آباد کا یہ سولہ مرلے کا گھر بھی شامل ہے۔

کیس چلتا رہا اور جب منطقی انجام کو پہنچا تو نیب کورٹ نے 11 دسمبر 2012 کو رفیق بنگش کے اس گھر کو قرق کرکے صوبائی حکومت کے نام منتقل کرنے کے احکامات جاری کردئے۔

پٹوار ریکارڈ کے مطابق متعلقہ گھر سولہ مرلے پر مشتمل ہے، جس میں انتقال نمبر بلترتیب 3082 اور 3083 کے تحت 8 مرلے رفیق بنگش اور 8 مرلے اُن کی اہلیہ فہمیدہ بیگم کے نام ہے۔

بیوہ رفعت بی بی کا دعویٰ
پشاور یونیورسٹی ٹاؤن افضل آباد میں موجود رفیق بنگش کے سولہ مرلہ گھر میں مقیم بیوہ رفعت بی بی کا دعویٰ تھا کہ وہ اس گھر کی موجودہ مالک ہیں اور اس گھر کے ساتھ رفیق بنگش کا کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اُن کے شوہر حوالدار خان سکنہ ٹل نے یہ مکان رفیق بنگش سے خریدا تھا۔

علاقہ مکینوں نے آج نیوز کو بتایا کہ نیب میں مقدمہ آنے کے بعد جب حوالدار خان کو گھر ضبط ہونے کا پتہ چلا تو وہ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ شوہر کی وفات کے بعد رفعت بی بی نے گھر بچانے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں۔

گزشتہ برس مرحومہ نے سول عدالت سے حکم امتناعی یعنی سٹے آرڈر لے لیا جو کہ اس نوعیت کے مقدمات میں بےسود ہے، کیونکہ یہ سول نوعیت کا مقدمہ نہیں بلکہ بدعنوانی کے ثابت شدہ مقدمے کے تحت کیا گیا فیصلہ ہے۔

دوسری جانب رفعت بی بی کے پاس گھر کی ملکیت کے دعوے کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لئے کوئی قانونی دستاویز نہیں تھی کیونکہ جائداد فروخت تو کی گئی لیکن نئے مالک کے نام اس کا انتقال نہ کیا گیا، اسی بنا پر جب تمام تر کوشش بےسود ثابت ہوئی تو مایوس ہو کر رفعت بی بی نے خود سوزی جیسا انتہائی قدم اُٹھا لیا۔

ٹاؤن پولیس کا بیان
پشاور یونیورسٹی ٹاؤن پولیس سٹیشن کے چیف انویسٹی گیشن آفیسر (سی آئی او) عظمت خان کے مطابق پولیس کو اطلاع ملی کہ یونیورسٹی ٹاؤن افضل آباد میں صوبائی حکومت کے نام انتقال شدہ گھر کو واگزار کرانے کی کوشش کے دوران گھر میں رہائش پذیر خاتون مشتعل ہوگئیں اور آخر کار بات اس حد تک بڑھ گئی کہ خاتون نے پیٹرول ڈال کر خود کو آگ لگادی۔ بعد میں خاتون کی شناخت رفعت بی بی بیوہ حوالدار خان کے نام سے ہوئی۔

عظمت خان کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج اور عینی شاہدین کے بیان سے صاف واضح ہوا کہ خاتون نے خود سوزی کی ہے، اس میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کشمنر کا کوئی ہاتھ نہیں، سی سی ٹی وی ریکارڈ کے مطابق واقعے کے دن بھی اسسٹنٹ کمشنر بوقت سانحہ کے موقع پر موجود نہیں تھے۔

پٹوار ریکارڈ کا احوال
پٹوار ریکارڈ کے مطابق بنام سرکار منتقلی کا عمل کئی سال بعد شروع کیا گیا، گھر کی صوبائی حکومت کو منتقلی کا عملی 2023 میں مکمل ہوا ہے، انتقال کے مطابق آٹھ، آٹھ مرلے کی منتقلی کا عملی بھی مختلف تاریخ کو گیا ہے۔

رفیق بنگش کے نام موجود 8 مرلے ملکیت کی سرکار کے نام منتقلی انتقال نمبر 10030 کے تحت 15 اگست 2023 کو ہوئی اور فہمیدہ بی بی کے نام پر 8 مرلے ملکیت کی منتقلی انتقال نمبر 10058 کے تحت 20 نومبر 2023 کو ہوئی، اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مگر حال ہی میں صوبائی حکومت نے نیب کے حکم پر تمام نیب زدہ جائیدادوں کو واگزار کروانے کے احکامات جاری کئے۔ پٹوار ریکارڈ میں رفعت بی بی اور اُن کے شوہر حوالدار خان کے نام پر سٹامپ پیپر یا انتقال کی صورت میں کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں۔

ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ٹاؤن کا مؤقف
ایڈیشنل اسسٹںٹ کمشنر ہارون سلیم نے آج نیوز سے وقوعہ کی بابت بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا چلایا گیا، اگر گھر میں زبردستی خالی کرواتا یا خاتون کے مارنے میں میرا ہاتھ ہوتا تو اُس کے لئے لازمی تھا کہ گھر کا معاملہ تین فریقین کے مابین ہوتا، یا گھر صوبائی حکومت کی ملکیت میں جانے کی بجائے کسی نجی شخص کو ملتا تو شکوک و شبہات بنتے‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ سارا ریکارڈ موجود ہے، صوبائی حکومت نے اس ضمن میں احکامات جاری کئے ہیں اور نیب نے گھر کو واگزار کروانے کے لئے خط بجھوایا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ آپ کے دفتر کو بار بار گھر خالی کروانے کا حکم دیا گیا، جس پر عمل نہیں ہوا۔

ایڈیشنل اسسٹںٹ کمشنر ٹاؤن کے مطابق اس بنیاد پر 24 جون 2024 کو بذریعہ نائب تحصیلدار ٹاؤن کے گھر کو خالی کروانے کا نوٹس جاری کیا، جس میں خاتون کو آگاہ کیا گیا کہ مذکورہ گھر بحق صوبائی حکومت منتقل ہوچکا ہے، آپ ایک ہفتے کے اندر گھر خالی کریں، اس پر عمل نہ ہوا، کئی مہینوں تک کوشش کی گئی اور جب بات نہ بنی تو 8 جنوری 2025 کو بذریعہ لیڈیز کانسٹیبل گھر کو سیل کرنے پہنچے تو رفعت بی بی کی درخواست پر ایک مہینہ کی مہلت دے کر 8 مرلہ مکان کو سیل کرکے قفل لگادیا گیا۔ ایک ماہ بعد باقی ماندہ 8 مرلہ مکان سیل کرنے کے دوران یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔