اسلام آباد میں عورت مارچ کے تحت انتظامیہ سے باضابطہ اجازت نہ ملنے کے باوجود آج (ہفتہ) کو طے شدہ پروگرام کے مطابق نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی نکالی جا رہی ہے۔ پولیس نے ریڈ زون جانے والے راستوں کو بند کردیا ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر شروع ہونے والے عورت مارچ میں خواتین نے مختلف سلوگن بینر اٹھا رکھے ہیں اور نعرے بازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسلام آباد پولیس کی بڑی تعداد میں نیشنل پریس کلب کے ارد گرد موجود ہے، جبکہ لیڈی پولیس بھی ڈیوٹی پر موجود ہے۔
ٹریفک پولیس کے مطابق لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کے باعث ایکسپریس چوک اور سرینہ ہوٹل کے داخلی و خارجی راستے بند کئے گئے ہیں، جبکہ ٹریفک کیلئے نادرا، میریٹ اور مارگلہ روڈ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کلب روڈ سے ریڈ زون جانے والی ٹریفک سیونتھ ایونیو کا استعمال کرے۔
حقوقِ نسواں کی کارکن اور مارچ کی مرکزی منتظمین میں شامل ڈاکٹر فرزانہ باری نے تصدیق کی کہ وہ گزشتہ برسوں کی طرح نیشنل پریس کلب کے باہر اجتماع کریں گے اور ڈی چوک کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ عالمی یومِ خواتین کو منایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ منتظمین نے کئی ماہ قبل اسلام آباد انتظامیہ کو باضابطہ درخواست دی تھی تاکہ نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک مارچ کی اجازت حاصل کی جا سکے، تاہم تاحال اس کے لیے کوئی این او سی جاری نہیں کیا گیا۔
منتظمین نے وزیرِاعظم شہباز شریف کو بھی ایک خط لکھا ہے، جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اسلام آباد انتظامیہ کو ہدایت دیں کہ مارچ کے انعقاد کے لیے این او سی جاری کیا جائے۔ تاہم، انتظامیہ کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ رمضان المبارک کے باعث پروگرام کو مؤخر کر دیا جائے۔
ڈاکٹر فرزانہ باری نے واضح کیا کہ منتظمین پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ مارچ انتہائی سادگی سے کیا جائے گا، جس میں موسیقی یا کسی بھی قسم کی تقریبات شامل نہیں ہوں گی تاکہ رمضان کے تقدس کا احترام کیا جا سکے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ سال میں صرف ایک بار آنے والے اس دن کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
منتظمین نے شرکا سے دن ایک بجے نیشنل پریس کلب کے سامنے جمع ہونے کی اپیل کی ہے، جبکہ تقریباً چار بجے ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انسٹاگرام پر جاری کیے گئے اپنے کھلے خط میں عورت مارچ کے منتظمین نے وزیرِاعظم کو آگاہ کیا کہ گزشتہ چھ سالوں میں متعدد کوششوں کے باوجود انہیں این او سی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے، اور انہیں تحفظ اور احتجاج کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔