رمضان المبارک کے مہینے میں طلاق کے کیسز میں اضافہ: اردن کے مفتی اعظم نے حل تجویز کر دیا

اردن کے مفتی اعظم احمد الحسنات نے رمضان المبارک کے مہینے میں طلاق کے کیسز سے متعلق گزشتہ برس اہم انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس مہینے میں طلاق کے زیادہ تر کیسز کی بنیادی وجہ زوجین کے درمیان کھانے پینے سے متعلق اختلافات ہیں۔ یہ معمولی اختلافات گھریلو ناچاقی، لڑائی جھگڑے اور آخر کار رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بن رہے ہیں۔

مفتی اعظم نے اس حوالے سے تفصیل سے بتایا تھا کہ ان کے پاس طلاق کے لیے آنے والے جوڑوں کے کیسز میں کھانے پینے سے جڑے کئی مسائل سامنے آئے تھے۔ مثلاً کھانے کے معیار پر تنقید، افطاری کی دعوتوں میں شرکت یا عدم شرکت کے فیصلوں پر جھگڑے، یہاں تک کہ کافی کے ایک کپ کی وجہ سے بھی باہمی اختلافات پیدا ہو رہے ہیں۔ ان معمولی باتوں پر ہونے والے جھگڑے گھر کے ماحول کو خراب کر دیتے ہیں، جو بالآخر طلاق جیسے سنگین فیصلے تک پہنچ جاتے ہیں۔

احمد الحسنات نے اپنے ٹی وی بیان میں بتایا تھا کہ اگرچہ رمضان میں طلاق کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن گزشتہ سال کے پہلے چند مہینوں کے مقابلے میں اس سال کے آغاز سے طلاق کے کیسز میں مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کمی کی وجہ موجودہ حالات اور معاشرتی تبدیلیوں کو قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اُردن کے شوہروں نے غزہ میں ہونے والے المناک واقعات، خاص طور پر وہاں کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کی مشکلات کو دیکھ کر صبر کرنا سیکھا ہے۔ ان حالات نے لوگوں کو اپنے گھریلو مسائل پر غور کرنے اور انہیں حل کرنے کا موقع دیا ہے۔

مفتی اعظم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ غزہ کے حالات نے نہ صرف اردن بلکہ پورے خطے کے لوگوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ غزہ کے باسی کس طرح مصائب اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل نسبتاً کم اہمیت کے محسوس ہونے لگے، جس سے طلاق کی شرح پر مثبت اثر نظر آیا ہے کیوں کہ لوگوں نے اپنے رشتوں کو بچانے کی کوشش میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ غصے، جذباتی دباؤیا کسی اور غیر مستحکم کیفیت میں لیے گئے فیصلے نہ صرف رشتوں کو تباہ کر دیتے ہیں بلکہ ان کا شرعی اعتبار بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔