پہلگام حملہ بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کا تسلسل، پاکستان پر الزام تراشی پرانی روایت

پہلگام حملے کے بعد ایک بار پھر بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی شرمناک تاریخ منظرِ عام پرآ گئی ہے۔ دفاعی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اس حملے کو بھارت کی پرانی پالیسیوں کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان پر الزام تراشی اور عالمی سطح پر بدنامی کی مہم کا تسلسل ہے۔

بھارت نے ماضی میں بھی ایسے واقعات کے بعد بغیر ثبوت پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ 2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس سانحے کا الزام بھی پاکستان پر لگا، مگر بعد ازاں تحقیقات میں سامنے آیا کہ اس حملے میں بھارتی فوج کے میجر رمیش اور انتہا پسند ہندو تنظیمیں ملوث تھیں۔

اسی طرح 2008 کے ممبئی حملے اور 2019 کے پلوامہ واقعے میں بھی بغیر کسی واضح شواہد کے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پلوامہ حملے کے بعد خود بھارت کے سابق گورنر نے سازش کا انکشاف کیا کہ یہ واقعہ الیکشن سے قبل بھارت کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔

ذرائع کے مطابق 2018 میں کیرالہ میں سیاحوں پر حملہ اور 2023 میں 5 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھی بھارت نے الزام پاکستان پر ہی عائد کیا۔

22 اپریل 2025 کو ہونے والا پہلگام حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جو اُس وقت کیا گیا جب امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر موجود تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حملے کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کا گڑھ ہے، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی 7 لاکھ نفری تعینات ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہر ساتویں کشمیری پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔ اس قدر سخت سکیورٹی کے باوجود دہشتگردی کے واقعات کا پیش آنا سوالیہ نشان ہے۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ان فالس فلیگ آپریشنز کا مقصد صرف اور صرف عالمی برادری کو گمراہ کرنا اور پاکستان کے خلاف منفی بیانیہ مضبوط کرنا ہے، لیکن اب یہ چالیں پوری طرح بے نقاب ہو چکی ہیں۔

مزید کہا گیا کہ بھارت کے ان اقدامات سے خطے کے امن کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اور عالمی برادری کو اس پر نوٹس لینا چاہیے۔