”فالس فلیگ آپریشن“: بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی بلاشبہ بھارت کے جارحیت اور انتہا پسندی کی نشاندہی کرتی ہے،مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا۔ انڈس واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت یافتہ معاہدہ ہے اگر بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کے ساتھ کئے گئے ہیں ۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو منسوخ یا معطل کرسکتا ہے۔۔؟معاہدے کے تحت بھارت از خود انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی اہلیت نہیں رکھتا۔ معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے جب بھارت اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں، انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی طرف سے ایک برطرفی کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا اور پھر دونوں کی طرف سے اس کی توثیق کرنی ہوگی۔ اس معاہدے میں یکطرفہ ”معطلی“ کی کوئی شق نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معینہ مدت کا ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی وقت کے ساتھ مخصوص یا واقعہ سے متعلق نہیں ہے۔

یہ دونوں ممالک انڈس واٹر ٹریٹی کے یکساں طور پر پابند ہیں ۔ کسی معاہدے سے ہٹنا دراصل اس کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر ”تنسیخ“، ”معطلی“، ”واپس لینے“ یا ”منسوخ“ وغیرہ جیسے جواز پیش کرکے معاہدے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے بھارت ”منسوخ یا دستبرداری“ کہے گا، پاکستان اسے ”خلاف ورزی“ سے تعبیر کرے گا۔

سوال یہ بھی کہ کیا ہوگا اگر بھارت پاکستانی پانی کو نیچے کی طرف روکتا ہے اور کیا یہ چین کے لیے اوپر کی طرف کوئی مثال قائم کر سکتا ہے؟ اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی آبی قانون کی خلاف ورزی ہوگی، بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق، بالا دستی والا ملک (جیسے بھارت) زیریں ملک (جیسے پاکستان) کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا، چاہے سندھ طاس معاہدہ موجود ہو یا نہ ہو۔

اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرزِ عمل قائم کرے گا، جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے، جو دریائے برہمپترا کے پانی کو روکنے کے لیے اسی بھارتی طرزِ عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ چین جیسی طاقتیں اس صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہوں گی۔

سندھ طاس معاہدہ، جو 1960 میں طے پایا، اپنی نوعیت میں ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں، بلکہ اس میں ترمیم صرف دونوں فریقین کی باہمی رضامندی اور باقاعدہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف اس کے طے شدہ طریقہ کار، جیسے مستقل انڈس کمیشن، غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی عدالت کے ذریعے تنازع کے حل، کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔ یہ معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا ہے، جو اس کی قانونی اور اخلاقی طاقت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں نے پہلگام حملے کو بھارت کی سوچی سمجھی سازش قرار دے دیا
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد ولی نے پہلگام حملے کو بھارت کی سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک منظم ”فالس فلیگ آپریشن“ تھا، جس کے ذریعے بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر الزامات کی بارش کر دی۔


انہوں نے کہا کہ حملے کے فوراً بعد بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف بیانیے کو ہوا دی گئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے بھارتی ریاستی سرپرستی شامل تھی۔

بریگیڈیئر (ر) راشد ولی نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا ضامن عالمی بینک ہے، اور کوئی بھی ملک اسے یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔ اگر بھارت نے اس اقدام پر عملدرآمد کیا تو اسے عالمی اداروں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

 انھوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی جانب سے پانی کے بہاؤ پر یکطرفہ اقدامات نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی ہوں گے بلکہ یہ عالمی سطح پر ”آبی دہشتگردی“ کے مترادف تصور کیے جائیں گے۔

تجزیہ کار راشد ولی کا کہنا تھا کہ خطے میں امن قائم کرنے کی ہر کوشش کو بھارت نے ہمیشہ نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دنیا کے مختلف ممالک، خصوصاً امریکہ اور کینیڈا، بھارت پر ریاستی دہشتگردی کے الزامات عائد کر چکے ہیں۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ مصنوعی حملے اور ڈرامے رچا کر وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے، لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے، جو زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتی۔

 انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے معاملہ سلامتی کونسل سمیت دیگر عالمی اداروں میں اٹھانا چاہیے، کیونکہ پانی ایک سنگین اور حساس مسئلہ ہے، جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے پہلگام حملے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے ہر قدم ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا جاتا ہے، اور انسانی جان کی کوئی وقعت ان کے ہاں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے سیاسی یا سفارتی مقاصد کے لیے تیس چالیس افراد کو مروا دینا بھارت کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔

گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے کہا کہ پہلگام واقعے کے فوراً بعد بھارتی میڈیا مکمل طور پر تیار بیٹھا ہوا تھا، جس نے بغیر کسی تحقیق کے فوراً پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی۔ انہوں نے مزید کہا، یہ حیران کن بات ہے کہ تقریباً دو ہزار سیاح موجود تھے، لیکن ان کی سیکیورٹی کے لیے کوئی مناسب انتظامات نہیں کیے گئے تھے اور جیسے ہی واقعہ پیش آیا، ایک گھنٹے کے اندر نہ صرف ملزم کو پکڑ لیا گیا بلکہ اس کا پاکستان سے تعلق بھی جوڑ دیا گیا۔

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ بھارت کی یہ چالیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ یہ ایک واضح فالس فلیگ آپریشن کی مثال ہے جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا ہے۔ پاکستان اس بے بنیاد الزام تراشی پر بھرپور سفارتی و سیاسی جواب دے گا اور عالمی برادری کو حقائق سے آگاہ کرے گا۔