لاہور میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے ”ماہر“ نکلے کہ ایک ماہ میں بائیس مبینہ پولیس مقابلے ہوئے، ہر بار ڈاکو مارا گیا اور ہر بار دعویٰ یہی کہ اس کا اپنا ہی ساتھی ”نشانہ خطا“ کر بیٹھا۔ حیرت انگیز طور پر ان تمام مقابلوں میں نہ کسی پولیس اہلکار کی وردی میلی ہوئی، نہ کسی کے بازو پر خراش آئی، نہ کسی کا ہیلمٹ ٹیڑھا ہوا۔
حکومت نے کرائم کنٹرول کے لیے سی آئی اے کو ختم کر کے نیا ”جادوئی“ محکمہ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) قائم کیا، اور نیا نظام آتے ہی لاہور میں پولیس مقابلوں کا سیلاب آ گیا۔ ایک ہی ماہ میں بائیس ہلاکتیں، ایک ہی طرز کی ایف آئی آرز، اور ہر بار ایک ہی کہانی: ”ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا“۔
وکلاء نے ان واقعات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر زیر حراست ملزم بھی پولیس مقابلے میں مر جائے تو کیا یہ صرف اتفاق ہوتا ہے؟ دوسری جانب پولیس کا موقف ہے کہ اگر ان پر فائرنگ ہوگی تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے تمام ملزمان اتنے بدقسمت تھے کہ ان کے ساتھی ہمیشہ انہیں ہی گولی مار بیٹھے؟ اور کیا پولیس اتنی خوش قسمت کہ ہر بار بچ گئی؟ یا پھر کہانی کچھ اور ہے، جو صرف ایف آئی آر کے سادہ لفظوں میں چھپ کر رہ گئی ہے۔
اتنی ماہر پولیس کی موجودگی میں زیر حراست ملزمان کی ہلاکت جہاں ایک بڑا سوالیہ نشان ہے وہیں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کسی بھی مقابلے میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھی جو کہ مبینہ طور پر اپنے ساتھی کو چھڑوانے کے لئے آتے ہیں۔ کیا ان کا نشانہ اتنا ہی کچا ہے کہ ان کی گولی سے صرف ان کا ساتھی ہی مارا جاتا ہے یا وجہ کچھ اور ہے۔