وفاقی حکومت کا 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی صنعتی اور زرعی صارفین کو سستی دینے کا منصوبہ

وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی موجود ہے، بغیر کسی سبسڈی کے یہ بجلی 7 سے ساڑھے 7 سینٹ میں صنعت اور زراعت کو دی جاسکتی ہے،6 ماہ سے اس اسکیم کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) میں نیٹ میٹرنگ سے نیٹ بلنگ کے نظام میں منتقلی کے حوالے سے منعقدہ مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس میں سولر انڈسٹری سے وابستہ ماہرین، متعلقہ سرکاری اداروں، صوبائی حکومتوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر توانائی نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ کو ختم نہیں کر رہی، بلکہ اس کے موجودہ طریقہ کار کو ایک زیادہ مؤثر، شفاف اور پائیدار ماڈل میں تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 18-2017 میں انہوں نے خود نیٹ میٹرنگ کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا، اور اُس وقت یہ نظام ابتدائی مرحلے میں تھا، اب جب کہ نیٹ میٹرنگ کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے، اس کے گرڈ پر سنجیدہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جن کا بروقت تدارک ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی صارف یا کاروبار کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتی، بلکہ تمام فیصلے ملکی مفاد اور توانائی کے نظام کی طویل مدتی پائیداری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اور نہ ہی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ والے صارفین ہمیں بجلی سب سے سستے بجلی کے ذرائع کے نرخوں پر فراہم کریں، اگر ہم یونٹس کی خریداری کا ذکر کرتے ہیں تو اس بارے بھی غور جاری ہے اور اس کو انرجی خریداری پرائس پر لانے کی بات ہو رہی ہے ، تاکہ نرخوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ نظام خود بخود ایڈجسٹ ہو۔ یہ تمام تجاویز زیر غور ہیں۔

وفاقی وزیر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے پے بیک پیریڈ اگر تقریباً تین سال یا اس سے کم ہے، تو یہ کسی بھی سرمایہ کاری کے لیے موزوں مدت ہے، اگر ایک صارف 40 فیصد بجلی خود استعمال کر رہا ہے تو تین سال میں رقم کی واپسی ایک قابلِ قبول تجارتی ماڈل ہے۔ یہ اصلاحات حوصلہ شکنی نہیں، بلکہ ایک بہتر، متوازن اور پائیدار نظام کی طرف پیش قدمی ہے۔

اجلاس کے دوران وفاقی وزیر توانائی نے ملک میں جاری توانائی اصلاحات کا جامع خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 9000 میگاواٹ کے مہنگے اور غیر ضروری منصوبوں کو ختم کیا، جو بجلی کے نظام پر بوجھ بن رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیپٹو پاور صارفین پر لیوی عائد کر کے انہیں گرڈ کی طرف واپس لایا گیا، جس کے نتیجے میں بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا جب کہ جون 2024 سے اب تک، صنعت کو دی جانے والی کراس سبسڈی کا حجم 174 ارب روپے ہے، جس سے صنعتی نرخوں میں 31 فیصد تک کمی آئی اور صنعتی کھپت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں مختلف صارفین کے لیے 14 سے 18 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی اصلاحات عملی طور پر اثر دکھا رہی ہیں۔

اس کے علاوہ، حکومت نے بڑے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کی جس سے نرخوں میں واضح کمی آئی، اور بجلی کے طویل مدتی منصوبے میں ایسے منصوبے شامل نہیں کیے گئے جن کی ضرورت نہ تھی۔

وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کے پاس اس وقت 7000 میگاواٹ اضافی بجلی موجود ہے، جو بغیر کسی سبسڈی کے 7 سے 7.5 سینٹ میں صنعت اور زراعت کو دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم 6 ماہ سے اسکیم کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں، حالانکہ ہم پر کوئی براہ راست مالی دباؤ نہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ بجلی کی سپلائی اور ڈیمانڈ کو توازن میں رکھا جائے، تاکہ نظام مضبوط ہو اور صارفین کو فائدہ پہنچے۔

انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا کہ گرڈ کی بہتری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انٹگریٹڈ گرڈ اور آف گرڈ دونوں کے لیے ہم جدید اور موثر حل لا رہے ہیں۔

آخر میں انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تمام اصلاحات ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کی جا رہی ہیں اور کوئی قدم عجلت میں یا عارضی بنیادوں پر نہیں اٹھایا جا رہا۔

اویس لغاری کا مزید کہنا تھا کہ یہ وقت ہے کہ ہم توانائی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں۔ شرکاء کی پیش کردہ تجاویز پر مثبت پیش رفت ہو گی تاکہ یہ عمل زیادہ مؤثر، جامع اور سب کے مفاد میں ہو۔