بھارت پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی اور سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر اقدامات کر کے پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔

واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ موسمیاتی چیلنجز کے اس دور میں پانی کی قلت اور پانی کی جنگیں پہلے صرف ایک نظریہ تھیں، بھارت پاکستان کا پانی بند کر کے پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے، ہم کہہ چکے ہیں کہ پانی بند کرنا جنگی اقدام کے مترادف ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات جذباتی یا جوش و خروش میں آ کر نہیں کہتے، نہ ہی ہمیں اس میں کوئی خوشی یا فخر محسوس ہوتا ہے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے بڑا یا چھوٹا ہو، یا اس کی طاقت یا قابلیت کچھ بھی ہو، وہ اپنی بقا اور اپنے پانی کے لیے ضرور لڑے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے اور امریکا سمیت دیگر ممالک کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہ دینے کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ پاکستان کے تناظر میں اس نظیرکو قائم ہونے نہیں دے سکتے، کیونکہ ہم پہلی جنگ ضرور لڑیں گے، لیکن وہ آخری نہیں ہوگی، اگر بھارت کو ہمارا پانی بند کرنے کی اجازت دی گئی، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہر بالائی دریا پر واقع ملک جس کے نچلی سطح کے ملک سے اختلافات ہوں، اسے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔


بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر ہم امن کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں، اگر ہم بھارت سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ مثبت مکالمہ، نئے معاہدے، حتیٰ کہ شاید نئے معاہدات کرنا چاہتے ہیں، تو پھر لازمی ہے کہ وہ پہلے پرانے معاہدوں کی پاسداری کرے اور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اپنے فیصلے کو واپس لے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دونوں ممالک کے فائدے کے لیے امن کا خواہاں ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے بھارتی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے دہشت گردی پر تعاون سے انکار کیا، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پہلگام حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کو رد کیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش کو مسترد کیا اور مزید بات چیت کے مواقع ضائع کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ مزید دہشت گردی ہوگی، مزید جنگیں ہوں گی اور امن نہیں ہو گا، بھارت کے وزیرِ اعظم اور ان کی حکومت شاید اپنے عوام کو اس انجام کے حوالے کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے ، یہی وجہ ہے کہ میرا وفد اور میں دارالحکومت سے دارالحکومت جائیں گے صرف ایک پیغام لے کر کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہمیں آپ کی مدد درکار ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں تو انفرادی طور پر حاصل ہونے والے نتائج سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یقیناً، اگر بھارت اور پاکستان مل کر کام کریں، تو ہم برصغیر سے دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں، بھارت اور پاکستان مل کر کشمیر میں ایسا سازگار ماحول پیدا کر سکتے ہیں جہاں کے لوگ ظلم و جبر سے آزاد ہو کر خوشحالی دیکھ سکیں، بھارت اور پاکستان کے درمیان تعاون کے لیے لازمی ہے کہ پانی کا بہاؤ آزادانہ جاری رہے، اور یہ وسیع تر تعاون کا پیش خیمہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، یہ بھارت کے لیے بھی ایک چیلنج ہے، ہم آنے والی دہائیوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ ہم پہلے ہی تباہ کن سیلاب، قحط سالی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرا یقین ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت مل کر کام کریں، تو اس چیلنج کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اگر ہم اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے، تو پھر کوئی غلط فہمی نہ رہے، قتل و غارت، تباہی، آفت، اور جھگڑوں کا ذمہ دار صرف اور صرف نریندر مودی اور ان کی حکومت کو ٹھہرایا جائے گا، آپ نے آج میری بات سنی ہے، میں دہرانا نہیں چاہتا۔

موجودہ بھارتی حکومت پر مزید تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اب وہ میری نسل اور آنے والی نسلوں کو صرف کشمیر پر جنگ کے لیے نہیں، صرف کسی دہشت گرد حملے پر مکمل جنگ کے لیے نہیں، بلکہ اب ہم آنے والی نسلوں کو پانی پر لڑنے کے لیے بھی مجبور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں اپنے مقصد میں پُراعتماد ہوں، اسی لیے میں پُرجوش ہوں، میں اپنے ملک کے عوام کو اس انجام کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہوں اور میں بھارت کے عوام کے خلاف کوئی دشمنی نہیں رکھتا۔

اس سے قبل پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے ارکان سے ملاقاتوں کے دوران بھارت کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے امریکا میں جامع سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے تاکہ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ واشنگٹن میں نئی دہلی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا بھی توڑ کیا جا سکے، پاکستانی وفد عالمی سفارتی کوششوں کے تحت لندن اور برسلز کا بھی دورہ کرے گا۔

قومی وفد میں سابق وزرا بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر شامل ہیں، جبکہ سینیٹر شیری رحمٰن، سینیٹر مصدق ملک، سینیٹر فیصل سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کے علاوہ سینئر سفارتکار جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی اعلیٰ سطح کے وفد کا حصہ ہیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق کیپیٹل ہل میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران وفد نے مسئلہ کشمیر پر ڈائیلاگ کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کا ادھورا ایجنڈا قرار دیا، وفد نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور سندھ طاس معاہدے کے احترام کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار یک طرفہ اقدامات یا پھر دھمکیوں پر نہیں بلکہ بات چیت اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے، انہوں نے کانگریس کے ارکان کو بھارت کے حالیہ بلا اشتعال جارحانہ اقدامات سے آگاہ کیا، جس میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ معطلی بھی شامل ہے۔


بلاول بھٹو نے امریکا، بالخصوص صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے اور جنگ بندی کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا پر شکریہ ادا کیا، وفد نے علاقائی امن، انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کے اصولی مؤقف کو دہرایا اور امن، ذمہ دارانہ طرز عمل اور بے بنیاد الزامات کو مسترد کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

دریں اثنا، امریکی کانگریس کے ارکان نے پاکستانی وفد کا خیر مقدم کیا اور دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور خطے میں امن و استحکام کو ترجیح دیں، کانگریس کے ارکان نے پاکستانی عوام کے ساتھ امریکی حمایت اور ملک کی اقتصادی ترقی میں تعاون کے عزم کو بھی دہرایا۔

قبل ازیں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اُن کی ٹیم نے کانگریس مین جیک برگمین، ٹام سوزی اور ڈیموکریٹک رکن الہان عمر اور ریپبلکن پارٹی کے رکن رائن کیتھ زنکے سے بھی ملاقات کی، وفد نے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدارامن کا انحصار اصولی ڈائیلاگ، باہمی تحمل اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے۔


خیال رہے کہ برگمین اور سوزی اُن ارکانِ کانگریس میں شامل تھے، جنہوں نے اپریل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھی، برگمین بارہا سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں آواز بلند کر چکے ہیں اور ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے ڈیموکریٹک سینیٹر کرس وان ہولن سے ملاقات کو تعمیری قرار دیا، چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ انہوں نے بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگجوانہ انداز پر پاکستان کی گہری تشویش اور بات چیت، مشترکہ تحقیقات یا تیسرے فریق کی سہولت کے ذریعے شمولیت سے انکار پر تبادلہ خیال کیا۔


انہوں نے ہاؤس کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی و وسطی ایشیا کی رینکنگ ممبراور ڈیموکریٹک کانگریس وومن سڈنی کاملیگر-ڈوو سے بھی ملاقات کی۔

کانگریس وومن کے ساتھ ملاقات میں خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے کھل کر گفتگو ہوئی، بلاول نے ایکس پر لکھا کہ مودی سرکار نے جو نیا غیر معمولی ماحول قائم کیا ہے، جس میں نامعلوم عناصر کے ذریعے ہر واقعے کے بعد بلا اشتعال جارحیت ہوتی ہے، جو دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات کو بڑھا رہا ہے۔

ریپبلکن سینیٹر جم بینکس سے بھی بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات ہوئی جس میں خطے میں امن اور سلامتی پر بات کی گئی، بلاول نے اس ملاقات میں صدر ٹرمپ کے تعمیری کردار اور جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کو سراہا، انہوں نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے چیلنجز کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، صرف سفارت کاری اور مذاکرات ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن لا سکتے ہیں۔


واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وفد نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر نیویارک کا دو روزہ دورہ مکمل کیا تھا، جہاں انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے ملاقاتیں کی تھیں۔

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی سید طارق فاطمی کی قیادت میں ایک اور وفد 2 سے 4 جون تک ماسکو کے دورے پر رہا تھا، جہاں انہوں نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور صدر ولادیمیر پیوٹن کے سینئر مشیر سے ملاقاتیں کی تھیں۔


رپورٹ کے مطابق پاکستان چاہتا ہےکہ ٹرمپ بھارت سے مذاکرات میں اپنا کردارادا کریں، 4 جون کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ تنازع نے واضح کر دیا کہ پہلگام واقعہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا، تنازع کے خاتمے اور ’سیز فائر‘ میں امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار فیصلہ کن تھا۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں امریکی یوم آزادی کی 249ویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ثابت کیا کہ وہ امن کے پیامبر اور تجارتی معاہدوں کے حامی ہیں۔


وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستان نے 6 بھارتی جنگی طیارے اس وقت مار گرائے جب 6 اور 7 مئی کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں 33 پاکستانی شہری شہید ہوئے تھے، انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے صبر و تحمل کے ساتھ جواب دیا، بھارت نے ہماری جانب سے پہلگام واقعے کی غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کا جارحیت سے جواب دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کو ٹھوس شواہد کے ساتھ سامنے آنا چاہیے تھا اور دنیا کو واقعے کی حقیقت سے قائل کرنا چاہیے تھا۔