ارطغرل غازی

بڑے عرصہ بعد پی ٹی وی نے ایک بہترین اقدام کرتے ہوئے ترکی سے درآمد شدہ تاریخی ڈرامہ اردو ڈبنگ کےساتھ پیش کرنا شروع کیاہے اگر پی ٹی وی کی تاریخ دیکھیں تو ماضی میں کہ جب یہ غیر معیاری نجی چینلز شروع نہیں ہوئے تو پی ٹی وی نے ایک سے بڑھ کر ایک شاندار تاریخی ڈرامہ پیش کیا یوں اس زمانے میں پی ٹی وی اپنے ناظرین کو تاریخ کے ساتھ جوڑے رکھنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف تھا مگر جب سے نجی چینلوں کےساتھ مسابقت کی فضا پیداہوئی ہے معیار کاتو بیڑہ غرق تھاہی الٹا اقدار و روایات سے نوجوان نسل کو باغی کرانےوالے ڈراموں اورپروگراموں کی بھرمارہونے لگی ‘ترک ڈرامے نے جس طرح سیکولر عناصر کی چیخیں نکال دی ہیں اس سے ثابت ہوتاہے کہ پی ٹی وی نے ایک عرصہ بعد جوفیصلہ کیاہے اس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے‘ کم از کم اس سے تاریخ کے ایک درخشاں باب سے نوجوان نسل کو آگہی ہورہی ہے ‘یہ وہ نسل ہے جو کتابوں سے پہلے ہی دور ہوچکی ہے جس کے بعد ان کو اپنی تاریخ سے روشناس رکھنے کےلئے یقینا ٹیلی میڈیا کو ہی استعمال کرنا ایک موثر ذریعہ رہ گیاہے‘ عثمانی خلافت مسلم دنیا کی سب سے طویل ترین عرصہ تک قائم رہنے و الی خلافت تھی جس نے پورے چھ سو سال تک تین براعظموں پر حکومت کی اور ہر مشکل گھڑی میں زبانی کلامی ہی صحیح مگر امت کی رہنمائی کی خلافت عثمانیہ کی با ت کی جائے تو پھر خلافت کے بانی عثمان خان کے والد ارطغرل کو کسی بھی صورت نظر اندازنہیں کیاجاسکتا بعض اسلام بیزار لوگ تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ ارطغرل خود غیر مسلم تھا اور عثمان خان کی قیادت میں ترکوں نے اسلام قبول کیاتھا‘ تاہم عثمانی ترکوں پر برصغیر میں پہلی مستند اورجامع کتاب لکھنے والے ڈاکٹر محمد عزیر اپنی کتاب تاریخ دولت عثمانیہ میں لکھتے ہیں ترکوں نے حضرت عمربن عبد العزیزؒ کے دور میں اسلام قبول کرنا شروع کردیاتھا اور پھر عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے عہد میں ترک جو ق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔
 
ڈاکٹر محمد عزیر کے مطابق چوتھی صدی ہجری یعنی دسویں صدی عیسوی میں ترک بکثرت اسلام میں داخل ہوئے اور 960ءمیں تو دولاکھ تک گھرانے مسلمان ہوئے اسی طرح معروف مورخ ابن اثیر کابیان ہے کہ ماوراءالنہر کی ایک ترکی قوم کے د س ہزار گھرانے جو بلا ساغون اور کاشغر کے نواح میں اسلامی علاقوں پر دھاوے بولاکرتے تھے دسمبر 1043میں اسلام لائے گویا ترک بحیثیت قوم ارطغرل کے عروج سے قبل ہی مسلمان ہوچکے تھے ‘مولوی نجیب اکبر آبادی اپنی کتاب تاریخ اسلام میں رقم طراز ہیںچنگیز خان کے دور میں ترک سردار سلیمان خان جو ارطغرل کے والد تھے نے بہت قوت پیدا کرلی تھی اور منگولوں کے حملوں سے بچنے کےلئے ترک بڑی تعدادمیں ان کی قیادت میں اکٹھے ہوگئے تھے جب ہر طرف ہلاکت و بربادی جاری تو سلیمان خان نے آرمینیا کے پہاڑوں میں اپنے قبیلوں کو مقیم رکھتے ہوئے اپنے لوگوں کو بلا ضرورت نقصان سے بچائے رکھا پھر جب چنگیز خان نے اپنے مرنے سے تین سال قبل سلجوقیوں کے دارالحکومت قونیہ پر حملہ کےلئے فوج روانہ کی تو سلیمان خان نے سلجوقی حکمران علاﺅ الدین کیقباد کو امداد پہنچانے کےلئے اپنے قبیلہ کو کوچ کاحکم دیا کئی تاریخ نویس اس امر پرمتفق ہیں کہ سلیمان خان کے لشکر کے ہراول دستہ جس کی تعداد 444 بیان کی جاتی ہے ان کے فرزند ارطغرل کی قیادت میں پہلے روانہ ہوگیاتھا ۔

ایک مقام پر پہنچ کر اس نے دیکھاکہ دوفریق میدان میں ہیں اسے کچھ علم نہیں تھاکہ کون کون مدمقابل ہیں چنانچہ اس نے کمزوراورتعداد میں کم فریق کاساتھ دینے کافیصلہ کیااور نعرہ تکبیر بلند کر میدان جنگ میں کود گیا یہ حملہ اس شدت اوربے جگری کےساتھ کیاگیاکہ منگولوں کے پاﺅ ں اکھڑ گئے اور میدان میںہزاروں لاشیں چھوڑ کربھا گ گئے علاﺅالدین کیقباد ا س غیر مترقبہ امداد اورفتح کو دیکھ کر بہت مسرورہوا اور میدان جنگ میں ارطغرل سے جو فرشتہ رحمت بن کر نمود ار ہواتھا بغلگیر ہوکر ملا سلجوقی سلطان نے ارطغرل کو انگورہ شہر کے قریب جاگیر عطا کی جبکہ سلیمان خان کو اپنی فوج کاسپہ سالار مقر رکیا یہ علاقے صلیبی ریاستوں کےساتھ واقع تھے اسلئے صلیبیوں کےساتھ مڈ بھیڑ ہونے لگی اور ارطغرل نے اپنی پوزیشن مزید مستحکم بنادی سلطان نے ارطغرل کو مزید انعامات عطا کیے بعدازاں جب بنی شہر اوربروصہ کے درمیان ایک جنگ میں ارطغرل نے سلطان کے نائب کی حیثیت سے تاتاریوں اوربازنطینیوں کے مشترکہ لشکر کو شکست دی تو ا سکے صلہ میں اس شہر کو بھی ارطغرل کی جاگیر میں دےدیا اوراسے اپنے مقدمتہ الجیش کاسالار مقرر کردیا اس وسیع علاقہ پر اپنا تسلط قائم رکھنے کےلئے ارطغرل اوربعدازاں اس کے فرزند عثمان کو مدتوں جنگیں لڑنا پڑیں‘ ہلا ل سلجوقی سلطان کانشان تھا جو ارطغرل اوربعد ازاں عثمان نے بھی اختیار کیا اورجو آج تک ترکو ں کاقومی نشان چلاآرہاہے 1288میں ارطغرل نوے برس کی عمر میں انتقال کرگیا جس کے بعد اس کے فرزند عثمان خان نے سلجوقی سلطنت کے خاتمہ پر سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالی۔