وزیراعظم عمران خان نے قانونی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تین وفاقی وزراءاور اٹارنی جنرل پر مشتمل خصوصی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دی ہے اور کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ عوام کی توقعات کے مطابق اصلاحات کےلئے ٹائم لائنز پر مبنی روڈ میپ مرتب کیا جائے جسکی روشنی میں آئندہ ہفتے مزید فیصلے کئے جائیں گے‘موجودہ انصاف کے نظام میں پائے جانےوالے سقم دور کرنا اور عوام کی آسان‘ سستے اور فوری انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا پارٹی منشور کا بنیادی جزو ہے‘انصاف کے موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد بہت حد تک متزلزل ہوچکا ہے‘ انصاف کے نظام میں بہتری کےلئے عوام کی توقعات موجودہ حکومت سے وابستہ ہیں‘ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح معاشرے کے کمزور‘ بے بس اورلاچار طبقات کی آواز بننا اور انہیں انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے‘ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ فوجداری مقدمات کے نظام میں اصلاحات ‘ تھانہ کلچر میں تبدیلی‘ مقدمات کے اندراج‘ تفتیش‘ جیل خانہ جات میں اصلاحاتی عمل کے حوالے سے بھی روڈ میپ تشکیل دیا جائے تاکہ ان اصلاحات پر جلد از جلد عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے‘ہمارے نظام قانون میں اصلاحات کی ضرورت طویل عرصے سے محسوس کی جارہی تھی مگر کسی بھی منتخب یا غیر منتخب حکومت نے عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی پر کوئی توجہ نہیں دی۔
کیونکہ مروجہ نظام سے ان کے اپنے بہت سے مفادات وابستہ تھے‘دیوانی مقدمات کی جلد تکمیل‘ انتقال وراثت‘ خواتین کو وراثتی جائیدا د میں ان کا حق دلانا‘ ریاست کی جانب سے کمزور اور نادار طبقات کو قانونی معاونت کی فراہمی اور کریمنل جسٹس سسٹم میں کی جانےوالی اصلا حات قومی ضرورت ہیں‘نظام انصاف میں سقم کی وجہ سے نہ صرف عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا جارہا تھا بلکہ عوام بھی انصاف کو ترستے رہے ہیںدیوانی مقدمات کے فیصلوں کےلئے لوگوں کو کئی نسلوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سول کورٹ میں کسی مقدمے کا فیصلہ اگر پانچ سال میں آجائے تو اس کےخلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی ہے وہاں سے فیصلہ آنے میں مزید پانچ دس سال لگتے ہیں سیشن کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے جسکا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس سال اور پھر سپریم کورٹ سے حتمی فیصلہ آنے میں مزید بیس سال لگتے ہیں‘چونکہ عدالتوں کے پاس اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کےلئے کوئی فورس نہیں ہوتی اسلئے فیصلوں پر عملدرآمد میں بھی برسوں لگ جاتے ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ لوگ عدالتی اور قانونی نظام میں پیچیدگیوں کے باعث اپنے مقدمات عدالتوں میں لے جانے سے ہچکچاتے ہیں‘پانچ مرلے کے ایک رہائشی پلاٹ کی مقدمہ بازی میں اس کی قیمت سے دس گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں فائلوں کو نوٹوںکے پہیے لگانے پڑتے ہیں ۔
جس کا پاکستان کا عام شہری متحمل نہیں ہوسکتا‘سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نے بھی بارہا نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے‘ہماری پولیس جانوں پر کھیل کر جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرتی ہے لیکن تفتیشی اور عدالتی نظام میں سقم کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر سزا سے صاف بچ جاتے ہیں پولیس کہتی ہے کہ عدالتوں نے انہیں چھوٹ دیدی جبکہ عدلیہ کا موقف ہے کہ مقدمہ کا چالان ٹھوس شواہدکی بنیاد پرتیار نہیں ہوتا‘ عدالتیں زبانی کلامی الزامات کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دے سکتیں‘یہی مسئلہ کرپٹ عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے میں بھی درپیش ہے۔ قومی احتساب بیورو جن لوگوں کو کرپشن کے الزامات کے تحت پکڑتا اور انکے مقدمات عدالتوں میں پیش کرتا ہے۔وہاں الزامات ثابت نہیں ہوپاتے حالانکہ جج صاحبان‘ پراسیکیوٹر‘ ایڈوکیٹ جنرل‘اٹارنی جنرل اور عوام کو بھی یقین ہے کہ ملزم نے وسیع پیمانے پر کرپشن کی ہے مگر نظام شفاف نہ ہونے کے باعث یہ مقدمات منطقی انجام کو نہیں پہنچ پاتے‘نظام انصاف میں قانونی اصلاحات لانے اور سقم دور کرنے کےساتھ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے حوالے سے ٹائم فرےم مقرر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ فوری انصاف کی فراہمی کے تقاضے پورے ہوسکیں‘کیونکہ انصاف کی فراہمی میں کسی بھی وجہ سے تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘یہ بات طے ہے کہ کفر کا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی پر مبنی معاشرہ تادیر قائم نہیں رہ سکتا‘عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے حکومت چونکہ ریاست کی نمائندگی کرتی ہے اور جو حکومت عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم نہیں کرتی گویا وہ اپنے مینڈیٹ سے انحراف کرتی ہے اور جو حکومت اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں دانستہ یا نادانستہ کوتاہی کی مرتکب ہو ‘وہ عوام پر حکمرانی کا استحقاق کھودیتی ہے۔