نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ موجودہ صورتحال زیادہ گھمبیر نہیں ہے۔ کچھ لوگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو میڈیا کی طرف سے صورتحال بہتر بنانے کے لئے ٹھوس تجاویز درکار ہیں۔ واپڈا ملازمین اور سرکاری افسروں کو مفت بجلی اور پٹرول فراہم کرنے سے متعلق نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بعض معاملات ایسے ہیں جن میں نگراں حکومت مداخلت نہیں کرسکتی۔ کتنے لوگوں کو مفت بجلی مل رہی ہے اور اس میں کتنی کمی ممکن ہے اس بارے میں اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد سوچ بچار کرکے فیصلے کریں گے۔ یا تو ان ملازمین کو بجلی کے مفت یونٹوں کے مساوی الاﺅنس دیئے جائیں گے یا یونٹوں کو آدھاکردیاجائے گا۔نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا کی پوسٹوں کی بنیاد پر کوئی فیصلے نہیں کرسکتے۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ نگران وزیراعظم کا عہدہ ملنے سے پہلے وہ کافی شاپ پر دوستوں کے ساتھ کافی پیتے تھے۔ یہ عہدہ ختم ہونے کے بعد وہ دوبارہ کافی شاپس کارخ کریں گے۔انوارالحق کاکڑ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملکی صورتحال سے باخبر انسان ہیں۔ جن لوگوں کے سیاسی عزائم ہیں وہ اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے ملکی مفاد میں غیر مقبول فیصلے نہیں کرپاتے۔ جن کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہوتے۔قوم ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ذاتی یاسیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں سوچیں اور فیصلہ کریں۔ غیر مقبول فیصلوں سے چند لوگوں کے مفادات کو تو نقصان ضرور پہنچے گا مگر اس سے ملک اور قوم کا فائدہ ہوگا۔پاکستان کے 25کروڑ عوام گذشتہ 75سال سے چند لاکھ افراد کے مفادات پر قربان ہورہے ہیں۔مگر اب یہ قوم مزید قربانی دینے کے قابل نہیں رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر قرضوں کاجومعاہدہ ہوا ہے۔اس قرضے سے کتنے کارخانے قائم ہوں گے۔ کتنے ڈیم اور بجلی گھر بنیں گے۔ کتنی شاہراہیں اور پل تعمیرہوں گے کتنے ہسپتال، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنیں گی۔یہ بات آج تک عوام کو نہیں بتائی گئی۔ عوام کو ہوشربا مہنگائی کی چکی میں پیس کر اور ان پر ٹیکسوں کا ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر جورقم اکھٹی کی جائے گی وہ بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی پرخرچ ہوگی اور باقی رقم کمیشن، کک بیکس اور چند ہزار لوگوں کی عیش و عشرت پرلٹائی جائے گی۔ آخر یہ خون چوسنے والا کھیل کب تک جاری رہے گا۔اب وقت آگیا ہے کہ قومی مفاد کی اصطلاح کی ازسر نو تشریح کی جائے۔قومی وسائل میں خیانت کو ناقابل معافی جرم قرار دے کر سخت ترین سزائیں مقرر کی جائیں۔نگراں وزیر اعظم کا یہ موقف مہنگائی کے مارے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے کہ موجودہ صورتحال پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مایوسی پھیلائی جا رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والوں اور سرکاری اداروں کے حکام نے اپنی ناقص کارکردگی، نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے قوم کو مایوس کردیا ہے۔سیاسی نظام اور جمہوریت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔اس وقت عوام کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اس سے موجودہ نگراں حکومت بخوبی واقف ہے اس لئے قوم امید رکھتی ہے کہ غریبوں کو ریلیف دینے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کرے گی خاص طور سے مہنگائی کم کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں گے۔