موجودہ عالمی ماحولیاتی انتشار اور وقفے وقفے سے ال نینو کے اثرات کے پیش نظر غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان اوزون کی تہہ میں صرف ایک فیصد کاربن کا اضافہ کرتا ہے، ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہیں۔اپنی بقا کےلئے اسے سنجیدگی سے لینا انتہائی ضروری ہو گیا ہے‘ اگرچہ پیرس معاہدہ اور کیوٹو پروٹوکول پالیسی کی سطح پر موجود ہیں لیکن حقیقی اثر کےلئے انہیں مکمل طور پر نافذ ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اگر ان کو تمام ممالک کےلئے لازمی قرار دے دیا جائے تب بھی اوزون کی تہہ کو خود کو ٹھیک ہونے میں نصف صدی لگ سکتی ہے مزید برآں یہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے شمالی پہاڑوں میں گلیشیئرز میں وقت سے پہلے پگھلنے کا سبب بن رہی ہے، جس کے نتیجے میں اب پانی کا بہت زیادہ بہاﺅ اور تقریباً 30 سال بعد پانی کم ہو رہا ہے‘ خشک سالی، گرمی کی لہریں اور جنگل کی بے قابو آگ ‘بڑے پیمانے پر سمندری لہریں، سائیکلون وغیرہ، کینیڈا، امریکہ، یورپ، چین، ہندوستان ‘پاکستان کے علاقے اور یہاں تک کہ کسی حد تک مشرق بعید میں بھی تجربہ کیا جا رہا ہے‘ انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کے تباہ کن اثرات کا پہلے ہی مطالعہ کیا جا رہا ہے اس دوران ہم پاکستان میں سیلاب، ژالہ باری کے ساتھ بے وقت بارش، ہماری فصلوں اور املاک اور انفراسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچانے والے بادل پھٹنے جیسی بڑی آفات کے منفی اثرات کو کم کرنے کےلئے کیا کر سکتے ہیں؟ تباہی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ کس طرح پچھلے سال کے سیلاب کے بعد سندھ میں ہماری سب سے زیادہ پیداواری زمین ابھی تک زیر آب ہے۔ ان سیلابوں نے جنوبی پنجاب اور چترال سمیت خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ان بارشوں اور سیلاب سے تیس لاکھ سے زائد لوگ بری طرح متاثر ہوئے۔اس لئے ہمیں ابھی اور فوری طور پر کام کرنا چاہیے ہم بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا انتظار کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ رائے عامہ کو متحرک کر کے حکومت عملی اقدامات کر سکتی ہے جیسے بڑے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، سیلابی پانی کو ہٹانے اور ذخیرہ کرنے کے لئے ڈائیکس، سڑکوں، ریلوے‘ حتیٰ کہ ان کی ریلائنمنٹ کےلئے پشتوں اور پلوں کی اونچائیوں کو بڑھانا، کراس ڈرینج سٹرکچر کی بہتری۔ فضائی اور زمینی سروے اور دیہات کو اونچی زمین پر منتقل کرنے کے ذریعے کمزور علاقوں کی نشاندہی کی گئی۔اس سب کےلئے ایک ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، جو منصوبہ بندی ڈویژن کی نگرانی میں ایک قابل، تجربہ کار اور قابل اعتماد مشاورتی فرم کے ذریعے تخمینوں اور ٹھوس ڈیزائنوں کے ساتھ تیار کیا جائے۔ واپڈا، ریلویز، صوبائی محکمہ آبپاشی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی جیسی مختلف ایجنسیوں کے ذریعہ وسائل کی دستیابی پر منحصر ہے کہ اگلے چند سال میں تکمیل کےلئے اس پر عمل درآمد کو مرحلہ وار کیا جا سکتا ہے‘ہمیں گندم، کپاس، مکئی اور چاول وغیرہ کی فصلوں کی نئی اقسام بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو کھڑے پانی، زیادہ بارشوں اور خشک سالی کے حالات میں اگ سکیں‘ یہ منصوبے زیادہ آمدنی پیدا کریں گے، بے روزگاری اور غربت میں کمی لائیں گے، مجموعی خوشحالی لائیں گے اور ہمارے لوگوں کو ایک نئی سمت اور امید دیں گے۔ اس ماڈل کو بعد میں دیگر ترقی پذیر ممالک میں مناسب ترمیم کے بعد نقل کیا جا سکتا ہے۔تمام میگا پراجیکٹس پر عمل درآمد کےلئے ہماری صلاحیت اور استطاعت سے زیادہ پائیدار اور مستقل فنڈنگ کی ضرورت ہوگی۔ اپنی طرف سے ہمیں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ صرف ضروری سروے اور تحقیق کرنی چاہیے اور اپنی سستے بجٹ کی فراہمی کے ذریعے ایک معمولی آغاز کرنا چاہیے بلکہ غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کی دلچسپی کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر عالمی بینک جس کا پاکستان کےلئے کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ اور ورلڈ بینک کے مارٹن رائسر کی رپورٹ پاکستان کے عوام اور اس کی معیشت کو مزید تباہی سے بچانے کےلئے فوری اقدامات پر زور دیتی ہے‘چین، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے دوست ممالک کو بھی ان منصوبوں میں ہمارے مشترکہ شراکت دار بننے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔