کہنے کو گرین شرٹس ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر ہے مگر سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے گئے بارش زدہ میچ میں پاکستان کی ٹیم گلی محلے کی ٹیم نظر آئی۔ دنیا کی بہترین فاسٹ باﺅلنگ اٹیک پر اترانے والوں کے اس وقت پسینے چھوٹ گئے جب ہمارے تیز باﺅلرز اپنی باﺅلنگ لائن ہی بھول گئے۔ بھارتی بلے بازوں نے ہمارے تیز اور سپین باﺅلروں کی جو دھنائی کی اس کا انداز اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے صرف دووکٹوں کے نقصان پر 356رنز کا پہاڑ کھڑا کردیا۔ جس میں ویرات کوہلی اور راہول کی سنچریاں بھی شامل تھیں۔ہمارے کھلاڑیوں نے کم از کم پانچ یقینی کیچ اور رن آﺅٹ کرنے کے دو صاف مواقع ضائع کردیئے جس کا خمیازہ 228رنز کی شکست کی صورت میں انہیں بھگتنا پڑا۔ جب پاکستان کی بلے بازی کی باری آئی۔تو باﺅلرز کی طرح بلے باز بھی بلا گھمانا بھول گئے۔ حالانکہ بھارت کے پاس بین الاقوامی معیار کے فاسٹ باﺅلرز ہیں نہ ہی سپین باﺅلنگ ان کی خطرناک سمجھی جاتی ہے۔بھارت کی بیٹنگ لائن کافی مضبوط سمجھی جاتی ہے۔لیکن اسی ٹورنامنٹ کے پہلے ٹاکرے میں بھارتی ٹیم پاکستان کے مقابلے میں مقررہ پچاس اوورز بھی نہیں کھیل سکی اور آوٹ ہوگئی سپر فور کے میچ میں سری لنکا کے سپنرز کے سامنے بھی بھارتی بلے باز بالکل بے بس نظر آئے اور پوری ٹیم 213پر ڈھیر ہوگئی۔بھارت کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ احمقانہ تھا۔بھارتی کپتان کاکہناتھا کہ اگر وہ ٹاس جیتتے تو بیٹنگ کافیصلہ ہی کرتے۔ بابر اعظم نے ان کی مشکل آسان کردی۔ دونوں فاسٹ باﺅلرز نسیم شاہ اور حارث روف کا ان فٹ ہونا اور ٹورنامنٹ سے باہر ہونا بھی پاکستان کے لئے بری خبر ہے۔ دونوں کھلاڑی بھارت کے خلاف بیٹنگ کرنے بھی نہیں آئے اور اگر آبھی جاتے تو کونسا تیر مارنا تھا زیادہ سے زیادہ پانچ دس رنز ہی بنا لیتے۔ پاکستانی ٹیم کی باڈی لینگویج سے ہی اندازہ ہورہا تھاکہ وہ جیت کے جذبے سے عاری ہیں۔ کپتان سمیت ہرکھلاڑی انجانے خوف اور دباﺅ کاشکار نظر آیا۔فیلڈ میں جانے سے پہلے ڈریسنگ روم میں ہی انہوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ دفاعی کھیل کھیلنا ہے یہی وجہ ہے کہ افتخاراحمد، بابر اعظم، امام الحق، فخر زمان، رضوان اور سلمان آغا میں سے کسی نے بھی آگے بڑھ کر کھیلنے کی ہمت نہیں کی۔ کھیلوں کی تاریخ کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فٹ بال، والی بال، سکواش، ہاکی، باکسنگ، کشتی،کرکٹ،پولو، رسہ کشی سمیت کسی بھی کھیل میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والی کوئی بھی ٹیم آج تک کامیاب نہ ہوسکی۔ کامیابی کے لئے رسک لینا اور مخالف کو دباﺅ میں لانا پڑتا ہے۔ نہ جانے یہ بات ہمارے کوچ اور کپتان کو کیوں سمجھ نہیں آتی۔یہ گیارہ لڑکوں کا ذاتی کھیل نہیں، بلکہ پچیس کروڑ کی آبادی کی اس سے جذباتی وابستگی ہے اگر کسی نے ذاتی مفاد کے لئے قوم کی ساکھ کو داﺅپر لگانے کی کوشش کی ہے تو اس کاضرور محاسبہ ہونا چاہئے۔بھارت کےخلاف شرمناک شکست کے بعد گرین شرٹس عالمی رینکنگ میں اپنی نمبر ون پوزیشن سے بھی محروم ہوگئی۔اب ایشیا کپ کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ایشیا کپ کے بعد قومی ٹیم نے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کے مقابلوں میں بھی شرکت کرنا ہے۔اگر اسی ٹیم اور صلاحیت کے ساتھ ورلڈ کپ میں بھارت، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو کامیابی کی توقع رکھنا خوش فہمی ہوگی۔ٹیم میں تبدیلیاں لانے، آل راونڈرز کوٹیم میں شامل کرنے اورلڑکوں کی نفسیاتی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ بات انہیں اچھی طرح سمجھانی ہوگی کہ کامیاب بننا ہے تو جوانمردی سے مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا کیونکہ کامیابی صرف بہادروں کے حصے میں آتی ہے۔