پانی ایک نعمت اور زندگی کی علامت بھی ہے لیکن جس بے رحمی سے ہمارے ملک میں پانی کو استعمال کرتے ہوئے ضائع کیا جارہا ہے اس سے یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کے رہائشیوں کو پینے کے صاف پانی کے لیے بھی لائنوں میں لگنا پڑے گا یا مہنگے داموں پانی خرید کر پینا پڑے گا۔پانی کی قلت کے اسباب جہاں قدرتی ہیں وہیں انسان بھی اس کا برابر کا ذمہ دار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے بڑے ذخائر بروقت تعمیر نہ کرنے اور مناسب انتظامات نہ کرنے کے باعث پانی کی فی کس دستیابی میں بڑی حد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔دنیا بھر میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور گھریلو پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کی ٹیکنالوجی کے ذریعے شہریوں کو پانی کی فراہمی کا نظام چل رہا ہے۔ ہمارے یہاں اس طرف توجہ نہیں دی جارہی۔ گزشتہ سال آنے والے پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ایک بار پھر سیلابی پانی اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف)اس مقصد میں پیش پیش ہے اور ری چارج پاکستان کے نام سے ایک بڑے منصوبے کا آغاز کرنے جارہا ہے۔ 7 برسوں میں مکمل ہونے والے اس منصوبے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے ایک کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ضائعہونے سے بچایا جا سکے گا۔ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات کا باعث بننے والے عوامل میں پاکستان کا حصہ انتہائی محدود ہے لیکن اسکے اثرات سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ برس آنےوالے سیلاب نے جہاں کم و بیش 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا یا وہاں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی اہمیت بھی اُجاگر کیا۔دیر آئد درست آئد کے مصداق یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اب حکومتی ادارے سنجیدگی سے سیلابی پانی سے فائدہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ نیچر بیسڈ سلوشن کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے اور اس کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کےلئے ابتدائی طور پر انڈس بیسن پر4ایسے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔یہ منصوبے منچھر جھیل‘چکر لہری‘ڈیرہ اسمعیل خان اور رمک واٹر شیڈ کے نام سے شروع کیے جائینگے ‘ اس کیساتھ ساتھ مختلف شہروں میں بارش کے پانی کومحفوظ کرنے کےلئے رین واٹر ہارویسٹنگ ٹینک بنانے کے منصوبے پر بھی کام ہورہاہے جس میں بارش کے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ بعدازاں یہ پارکوں کو پانی دینے اور شہر کی سڑکوں کی صفائی کےلئے استعمال ہوتا ہے اس اقدام سے زمین سے پانی نکالنے کی ضرورت میں بھی کافی حد تک کمی جائےگی۔ کیونکہ اس وقت جس رفتار سے پانی نکالا اور ضائع کیا جا رہا ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ زیرِزمین پانی کا لیول 2025 تک 70 سے 100 میٹر تک جا سکتا ہے۔