قول و فعل مطابق نہیں‘ خیبرپختونخوا کا منظرنامہ یہ ہے کہ حکومتی بیانات اور زمینی حقائق میں فاصلہ بڑھ رہا ہے‘ حسب توقع کورونا وائرس کے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کےساتھ اس پراسرار وبا کو شکست دینے سے متعلق دعوو¿ں کے مطابق عملی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں نہیں آ رہی اور نہ ہی عوامی تعاون حکومت کے شامل حال اور اس کا بھی اعتراف نہیں کیا جا رہا‘جن سرکاری ہسپتالوں میں کورونا وبا کے علاج کےلئے ہنگامی بنیادوں پر خصوصی مراکز قائم کئے گئے تھے‘ وہاں خوف کا عالم ہے‘ڈاکٹر مریضوں اور مریض ڈاکٹروں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ایک کے مرض سے بچاو¿ ممکن نہیں رہا اور دوسرے کےلئے علاج معالجے کی حسب ضرورت سہولیات میسر نہیں!ایوب ٹیچنگ ہسپتال‘ ایبٹ آباد کی اس سادہ سی مثال سے بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں یہاں کورونا وبا کی تصدیق کرنے کےلئے ایک خصوصی لیبارٹری کا اضافہ کیا گیا‘ جسکے بعد پہلے سے موجود لیبارٹری کی صلاحیت بڑھ گئی اور امید تھی کہ اس کے بعد ہسپتال سے رجوع کرنےوالوں کو نجی لیبارٹریز سے تجزئیات کروانے کا مشورہ نہیں دیا جائے گا لیکن ہسپتال کے آمنے سامنے نجی لیبارٹریزاور نجی ہسپتالوں سمیت سرکاری معالجین کی نجی علاج گاہوں بڑی تعداد میں قائم ہیں‘ جنکے کاروباری روابط سرکاری ہسپتال میں بیٹھے اکثر معالجین سے ہیں اور یوں ہر مریض کو صرف تجزئیات و ادویات ہی کےلئے نہیں بلکہ وارڈ میں داخل ہونے۔
جراحت کےلئے کسی نہ کسی سرکاری معالج کو خوش کرنا پڑتا ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ مریض کی سماجی و مالی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ کے بارے اندازہ اسکے کپڑوں‘ قومی شناختی کارڈ میں درج کوائف اور بات چیت سے معلوم کر لیتے ہیں‘ جسکے بعد معلوم کر لیا جاتا ہے کہ اس مریض کو کتنی مرتبہ اور کس کس مرحلے پر فروخت کیا جا سکتا ہے! دور افتادہ‘ پہاڑی علاقوں سے مرکزی شہر آنے والوں کو علاج سے لیکر قیام و طعام تک ہر مرحلے پر جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘اس کے بعد اسکے پاس بسااوقات گھر واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں بچتا‘ علاج معالجے کا بیمہ و دیگر حکومتی سہولیات کا دائرہ کار دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام مستحقین تک نہیں پہنچ سکا تو یہ ایک موضوع اور بحث کا نکتہ ہے۔ایوب ٹیچنگ ہسپتال کو فراہم کی جانےوالی نئی لیبارٹری نے کورونا وبا کی تصدیق کا عمل روک دیا ہے کیونکہ صرف پی سی آر مشین اور عملہ ہی کافی نہیں بلکہ تجزیہ کرنے کےلئے درکار ضروریات ختم ہو چکی ہیں اور اگرچہ ہسپتال کی جانب سے صوبائی محکمہ صحت کے متعلقہ شعبے کو بروقت آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن حسب توقع فوری ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا‘ مذکورہ تجزیہ گاہ صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے کے ادارے کی جانب سے فراہم کی گئی تھی‘ جنہوں نے آلات کےساتھ اسے جاری رکھنے کےلئے کسی ایسی کمپنی سے معاہدہ نہیں کیا جو اسے بحال رکھنے کےلئے ضروریات فراہم کرتی رہتی۔ آلات کےساتھ آنےوالی تمام ٹیسٹنگ کٹس ختم ہونے کے بعد ملازمین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں جبکہ کورونا کے مشتبہ متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ جنہیں نجی طور پر ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ ان کا باقاعدہ علاج شروع ہو سکے اور کسی نجی لیبارٹری سے کورونا ٹیسٹ کی کم سے کم قیمت بھی سات ہزار روپے ہے!
ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں 26مئی سے کورونا وائرس کے ٹیسٹ نہیں ہو رہے اور یہ سلسلہ کب تک معطل رہےگا‘ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا‘ایک اہلکار سے جو معلومات بمشکل حاصل ہو سکیں انکے مطابق کورونا وائرس کی خودکار تشخیص کرنےوالی مشین صرف اس وجہ سے ناکارہ پڑی ہے کیونکہ اس کےلئے دستیاب ضروریات موجود نہیں اور ان ضروریات کے حصول کےلئے خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے‘ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مذکورہ مشین کے اس خاص حصے میں خرابی ہے‘ جو خودکار طریقے سے ٹیسٹنگ کرتا ہے اور کورونا وائرس کے تجزئیات کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری ہے لیکن اسے محفوظ طریقے سے سرانجام نہیں دیا جا رہا‘ایبٹ آباد کی صورتحال سے خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں میں فراہم کی جانےوالی اس قسم کے تجزئیاتی آلات کی کارکردگی اور صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں‘اصل بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کسی بھی شعبے میں خاطرخواہ انداز سے نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ کورونا وبا کے علاوہ دیگر امراض و محرکات سے بھی اگر کوئی مر رہا ہے تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم عوام پر مشتمل طبقہ ہے‘ جس کے منہ میں زبان تو ہے لیکن اپنے حق کے لئے بولتا نہیں‘جس کے چہرے پر آنکھیں تو ہیں لیکن وہ ان سے ہونے والی حق تلفی کو دیکھ نہیں رہا‘ جس کی سماعتوں پر امتیازی سلوک بارے مثالیں اثر نہیں کرتیں اور جس کے محسوسات ہی نہیں بلکہ اس کی نمائندگی کا دعویٰ کرنےوالے ماضی و حال کے حکمران اسے مسلسل دھوکہ دے رہے ہیں۔