تاریخی لحاظ سے پہلی مرتبہ کسی نجی خلائی راکٹ اور کیپسول کے ذریعے دو خلانوردوں کو زمینی مدار میں زیرِ گردش بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک کامیابی سے پہنچایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا نے خلانوردوں کے لیے آخری خلائی شٹل 2011 میں بھیجی تھی۔ اور اب ایلون مسک کی نجی کمپنی سپیس ایکس کے ذریعے دو خلانوردوں کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں بھیجا گیا ہے۔ ماہرین نے اسے ایک تاریخی قدم قراردیا ہے جس میں پہلی مرتبہ اسپیس ایکس کمپنی نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ہفتے کے روز ناسا کے دو خلانورد ڈوگ ہرلے اور بوب بیہن کن ڈریگن خلائی سواری کے ذریعے آئی ایس ایس کے مدار میں پہنچائے گئے اور اس کے بعد خلانورد اب آئی ایس ایس میں قدم رکھ چکے ہیں۔
اس سے قبل سپیس ایکس کمپنی نے اپنے راکٹ اور پورے نظام کی آزمائش کی اور 2012 سے 2020 تک آئی ایس ایس تک 20 پروازیں کیں اور وہاں سامان پہنچایا۔ اس دوران ڈریگن پے لوڈ سسٹم کو بہتر سے بہتر بنایا گیا اور اس کے ڈیزائن میں بھی کئی تبدیلیاں کی گئیں۔ پھر مئی 2014 میں ایلون مسک نے سات افراد کے لیے ایک ڈریگن کیپسول کا ڈیزائن پیش کیا جو بڑی حد تک اپالو خلائی گاڑی جیسا تھا۔ تاہم ڈریگن کو زائد وزن اور افراد لے جانے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈریگن کیپسول خلانوردوں کو دوبارہ زمین تک لائے گا اور اس میں 16 تھرسٹر لگائے گئے ہیں جو اس سواری کو مدار میں اپنے ہدف تک سفر میں مدد دیتے ہیں۔ اسپیس ایکس کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے ڈیزائن کو ہم نے تبدیل کرکے اسے اکیسویں صدی کے خلائی جہاز کا روپ دیا ہے۔ اندرونی جانب جگہ جگہ ٹچ اسکرین لگے ہیں جو مختلف کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈریگن خلائی کیپسول کی زمین پر واپسی ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہوگی کیونکہ وہ زمین پر آواز کی 25 گنا رفتار سے سفر کرتا ہوا سمندر میں گرے گا۔ اس عمل میں کیپسول کی سطح زبردست حد تک گرم ہوجائے گی جس پر ماہرین نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس بات پر ایلون مسک بھی فکرمند ہیں۔