کورونا سے اموات میں تیزی کیساتھ ملک بھر میں لوگوں کی جانیں بچانے میں مصروف ڈاکٹر‘ نرسز‘ ٹیکنیشن اور دیگر عملہ کی اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے 28 اہلکار اس بیماری کے خلاف لوگوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں جبکہ 1904دیگر وائرس کا شکار ہوئے ہیں‘ جاں بحق ہونیوالے ڈاکٹروں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے‘ ڈاکٹر اسامہ جن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے وہ کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والے پہلے شہید ہیں ان کے بعد پشاور کے سینئرڈاکٹر جاوید‘ ڈاکٹر اورنگزیب ‘ ڈاکٹر اعظم‘ لاہور کے ڈاکٹر علی رضا‘ ڈاکٹر احمد‘ کوئٹہ کے ڈاکٹر شاہ ولی‘ ڈاکٹر زبیر‘ پنجاب کے ڈاکٹر ناصر علی‘ ڈاکٹر سلمان طاہر‘ لاہور کی ڈاکٹر ثناءکاظم ‘ راولپنڈی کی ڈاکٹر رابعہ طیب‘ بلوچستان کے ڈاکٹر نعیم آغا‘ پنجاب کے ڈاکٹر سلیم‘ خیبرپختونخوا کے ڈاکٹر خانزادہ شنواری‘ کراچی کے ڈاکٹر فرقان الحق‘ بلوچستان کے ڈاکٹر اسلم مینگل‘ کراچی کے ڈاکٹر عبدالقدیر سو مرو‘ خیبرپختونخوا کے ڈاکٹر پھاگ چند اور کوہاٹ کی نرس مسرت دلبران ہیروز میں شامل ہیںجنہوں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی قربانی دی‘ ان میں سے چند ایک کے علاوہ تمام سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین ہیں جبکہ ایسے بھی ہیں جو پرائیویٹ طور پر مریضوں کے علاج کے دوران وائرس کا شکار ہوئے‘ ایسے وقت میں جب ایک بڑی تعداد میں سینئر اور جونیئر مرد وخواتین ڈاکٹر‘ نرسز اور پیرا میڈیکل عملہ اس وقت بھی مختلف ہسپتالوں میں موت وحیات کی جنگ لڑ رہا ہے‘ ۔
آج بھی ہمارے ہاں لاکھوں لوگ نہ صرف کورونا کو ایک سازش سمجھتے ہیں اور کوئی احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہے بلکہ جو لوگ حکومتی اور عالمی اداروں کی ہدایات کے مطابق احتیاطی تدابیر اٹھا رہے ہیں‘ ان کا مذاق اڑارہے ہیں‘ لاکھوں لوگ بچوں اور دوستوں کے ہمراہ روزانہ بازاروں میں خریداری کیلئے آتے ہیں‘ بے شمار دکانوں‘ حجروں اور دیگر جگہ اکٹھے ہو کر گپیں ہانک رہے ہیں‘ بڑی تعداد میں لوگ دیگر سالوں کی طرح مری ‘ نتھیا گلی‘ کاغان کالام کی سیر کو نکل چکے ہیں‘ سکول اور کالج کے علاوہ شادی ہال اور شاپنگ مالز کے مالکان لاک ڈاﺅن ختم کرکے معمول کی زندگی گزارنے کے مطالبہ کررہے ہیں‘ حکومت نالائقی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہی ہے‘ 24گھنٹوں میں 88 افراد کی جاں بحق ہونے کے باوجود صرف عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ احتیاط کریں اور باہر نہ نکلیں‘ کیا حکومت‘ انتظامیہ یا کسی بھی محکمے نے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے کوئی اقدامات اٹھائے ہیں؟ کیا کسی نے ملک بھر میں علماءکرام اور امام صاحبان جن کا معاشرے میں اثر ورسوخ ہے‘ ان کی مدد طلب کی ہے تاکہ عوام میں پھیلی گئی افواہوں کی تردید کی جاسکے اور عوام کو اس بات کا یقین دلایا جاسکے کہ کورونا ہر کسی کیلئے جان لیوا ہے اور احتیاط نہ کی گئی تو ایک دن یہ وائرس ان کی اور ان کے پیاروں خصوصاً بیمار لوگوں اور بزرگوں کی جان لے سکتاہے‘ ۔
کیا کسی ایم این اے‘ ایم پی اے نے گھر سے نکل کر یا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے عوام میں آگاہی پیدا کرنے‘ ان کو احتیاطی تدابیر اپنانے کی کوشش کی ہے؟ بدقسمتی سے انتظامیہ کے افسران بھی حکومتی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہوچکے ہیں‘ سوائے چند ایک کے کہ ان کی اکثریت صرف سیلفی لینے اورسوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے کیلئے اپنی تصاویر ڈالنے کو ہی فرائض کی انجام دہی سمجھتے ہیں‘ ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ رمضان کے آخری دنوں اور عید کے دوران کورونا وائرس پاکستان میں کتنی شدت سے حملہ آور ہوچکا ہے اور روزانہ کتنی جانیں لے رہا ہے‘ ایک بڑی تعداد ہسپتال میں زیر علاج ہے جبکہ لاتعداد ایسے افراد ہیں جو گھر میں نجی طور پر اپنا علاج کروا رہے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتال جانے سے خوفزدہ ہیں‘ کوئی اس افواہ پر یقین کرچکا ہے کہ ہر لاش کے بدلے حکومت کو لاکھوں روپے مل رہے ہیں‘ کسی کی یہ خوش فہمی ہے کہ پاکستان میں کورونا کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘ کوئی گھر میں رہتے ہوئے اور باہر نکل کر احتیاطی تدابیر اپنانے میں سنجیدہ نہیں‘ اردگرد سینکڑوں لوگوں کی جانیں بھی ان کو صرف اپنی اور خاندان کی حفاظت پر قائل نہیں کرسکیں‘ اس میں قصور حکومت اور اس کے اداروں کا بھی ہے جس نے کبھی سنجیدہ اور موثر انداز میںا ن افواہوں کی تردیدکی کوشش ہی نہیں کی بلکہ کنفیوز بیانات اور اقدامات سے عوام کو مزید کنفیوز کیا۔