اڈائیلاگ اورمناظرہ

مفتی صاحب کے پاس محلے کے ایک بزنس مین آئے۔ ان کو مسجد کے امام سے شکاےتیں تھیں۔ مفتی صاحب کو بتایا کہ امام صاحب بینک میں اکاﺅنٹ رکھتے ہیں اور ان کو فتویٰ چاہئے تھا کہ یہ حرام ہے۔ مفتی صاحب کی تفتیش پر بتایا کہ مولوی صاحب کو پانچ ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی ہے۔ کھانا گھروں سے آجاتا ہے اور بچے پڑھنے کیلئے آتے ہیں تو وہ بھی حسب توفیق مدد کرتے رہتے ہیں۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ سائل خود کیا کام کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہ اچھا خاصا بزنس کرتے ہیں۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ کیا ان کا بینک اکاﺅنٹ ہے؟ صاحب نے فخر سے بتایا کہ پانچ بینک اکاﺅنٹ ہیں۔ تب مفتی صاحب نے فتویٰ دینے کی بجائے اپنے بینک اکاﺅنٹ پہلے بند کرنے کا مشورہ دیا اور یوں فتویٰ کے اس عظیم منصب کو کسی کی شخصی پرخاش کیلئے استعمال کرنے نہ دیا۔ دنیا میں رفتہ رفتہ برداشت کا خاتمہ ہورہا ہے۔ ایک پر امن اور دوسرے کے دکھ درد میں شریک معاشرے کا قیام روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ جو جمہوریت کا چیمپین جانا جاتا ہے‘ وہاں پر گوری پولیس کے خلاف ہر شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں‘ ہنگاموں‘ جلوسوں ‘ احتجاج اور تھوڑ پھوڑ کی وجہ ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ایک فریق دوسرے فریق کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جب بات چیت ناممکن ہوجائے تو تشدد اپنا راستہ خود ہی بنالیتا ہے۔ اپنے آپ کو ہر حالت میں حق بجانب سمجھنا اور مخالف فریق کو گمراہ قرار دینا عام ہے اور اس کی بنیادی وجہ ایک ہی گروہ میں رہنا ہوتا ہے۔

 جہاں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ جب آپ کے آس پاس سب لوگ ایک ہی قسم کی سوچ رکھتے ہوں تو منطقی سوچ سو جاتی ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے اس ماحول کو اور بڑھاوا دیا ہے۔ اگر دو مختلف اشخاص ایک ہی قسم کی سرچ گوگل میں ڈال دیں تو دونوں کو مختلف معلومات ملیں گی۔ ان کی گوگل سرچ کی ہسٹری سے گوگل خود بخود ان کو وہی مےٹریل فراہم کرنا شروع کردیتا ہے جس میں اس کی دلچسپی برقرار رہتی ہے‘ خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زمین کے ساکت ہونے کے دلائل ایک دو دفعہ تلاش کرلے تو اگلی دفعہ جب بھی وہ زمین کی حرکت کے بارے میں گوگل سرچ کرے گا تو اسے مزید انہی لوگوں کے بلاگ ملیں گے جو زمین کے ساکت ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی حال فیس بک کا ہے۔ اگر آپ نے غامدی کو ایک دو دفعہ سنا تو روزانہ فیس بک آپ کو دو تین پیجز کی تشہیر کرے گا اور اگر آپ نے مدنی چینل پر کلک کیا تو اگلی دفعہ آپ کو اسی قسم کے پیجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ‘ صرف تھوڑا سا حوصلہ چاہئے ۔ وہ لوگ جو معتدل مزاج میں حقیقت پانا چاہتے ہیں اور افواہوں ‘ جھوٹ کے دلائل کے خلاف اپنی کوشش جاری رکھنا چاہتے ہیں‘ ان کیلئے حکمت عملی کے ساتھ ڈائیلاگ کے کئی طریقے ہیں جن سے مہذب بحث ایک دوسرے کو کوسے بغیر جاری رہ سکتی ہے۔ اسکا پہلا اصول یہ ہے کہ اپنے گروہی خول سے باہر نکلیں۔ میرا لیڈر جو کچھ بھی کہے ضروری نہیں کہ وہ درست ہو۔ کسی بھی لیڈر کی اندھادھند تقلید ہمیں ایک گہرے کنویں میں گراسکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مخالف بیانیہ بھی غور سے سنا جائے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں مناظرہ اسی مقصد کیلئے شروع کیا گیا تھا لیکن پھر وہ ڈائیلاگ کی بجائے مقابلے میں تبدیل ہوگیا اور اکثر انجام ہاتھا پائی میں نکلنا شروع ہوا۔ ڈائےلاگ کی حکمت عملی میں سب سے بڑا عنصر تحمل سے دوسرے کی بات سننا ہے۔

اگر آپ اپنے اوپر مخالف کی بات کاٹنے والی عادت پر قابونہیں پاسکتے تو بہتر ہے کہ اپنے پاس کاغذ اور قلم رکھیں۔ اس سے کئی فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو مخالف سمجھ لیتا ہے کہ آپ گفتگو میں سیریس ہیں‘ دوسرا یہ کہ آپ ان کے نکات نوٹ کرسکتے ہیں جسے بعد میں آپ ان کے سامنے دہراسکتے ہیں لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب آپ کو غصہ آجائے تو بجائے بھڑاس نکالنے کے‘ اسے کاغذ پر منتقل کرلیجئے۔ تاہم دوسرے کی بات تحمل سے سنئے۔ جب وہ بات ختم کرلیں تو اپنے نوٹس کے مطابق ان کو تمام نکات دہرا دیں کہ واقعی ان کا مطلب یہ تھا۔ اس سے مراد ان کے ساتھ متفق ہونا نہیں بلکہ ان کو یہ احساس دلانا ہے کہ واقعی آپ نے ان کی بات غور سے سنی ہے۔ ڈائےلاگ میں چند ایک رکاوٹیں آتی ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی انا ہے۔ کسی کو فوراً غلط قرار دینا اس کی ذاتی انا پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور اس لئے وہ فوراً ہتھیار بند ہوجاتا ہے۔ اگر آپ اس کو منہ پر جھوٹا قرار دیں گے تو وہ کبھی بھی آپ کی بات سننے پر تیار نہیں ہوگا۔ اس کے مقابلے میں کوئی کہانی‘ کوئی حکایت یا قصہ بہت کام دے سکتا ہے۔ جب آپ بحث سے اس کی ذات نکالیں گے تو وہ بخوبی سننے پر تیار ہوگا۔ دوسری رکاوٹوں میں جماعت سے عقیدت اور اپنے خیالات سے محبت ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں اپنی جماعت کو بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی مخالف نظریے کو مقابل لاکر موازنہ کرنا ضروری ہے۔ باقی رکاوٹوں میں غلط فہمیاں‘ غلط معلومات اور غلط حوالے ہیں۔ پچھلے دنوں بل گیٹس کےخلاف میرے بہت سے دوستوں نے پوسٹیں دیں تو میں نے ان کو صحیح حوالے دئیے تو تقریباً تمام دوست اس قسم کی پوسٹوں سے باز آگئے۔یاد رکھئے کہ بحث میں اپنی عزت نہ کھوئیے اور نہ ہی مخالف کو دشمن سمجھ کر اسے نیچا دکھانے کی کوشش کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ڈائےلاگ پر راضی نہ ہو۔ ہر حال میں اپنی بات پر مصر ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ بحث سے اس کے نظریات بدلنے کے نہیں تو اس کو السلام علیکم کہہ کر خاموش ہوجایئے۔