حیرت کدہ عشق تمام شد

پچھلے ہفتے میری بیگم کورونا مریضوں کےساتھ کام کرتے کرتے اتنی پریشان ہوئیں کہ مجھے تشویش ہونے لگی‘میں نے جمعہ کے دن ان کو لے کر پہاڑوں کی طرف نکلنے کی ٹھانی۔ جب جانے لگے تو انہی کپڑوں میں نکلے جن میں رات گزاری تھی۔ ماسک لگائے‘ دستانے پہنے روانہ ہوئے۔ اپنے ایک دوست کے ہاں پہنچے تو وہ بھی یہی کپڑے پہنے ہوئے تھے‘ ماسک سے منہ چھپائے اور احتیاط سے دور دور بیٹھے رہے‘ ہم نے تین دن گزارے۔ اس دوران ہم باہر کم ہی نکلے لیکن جب گالف کورس میں واک کیلئے گئے (جہاں بہت سختی سے ماسک اور فاصلہ رکھنے پر عمل کروارہے تھے) تو دیکھاکہ تقریباً سب لوگ اسی طرح عام کپڑوں میں پھر رہے تھے۔ میری بیگم اورمیرے دوست کی بیگم آپس میں گفتگو کررہی تھیں‘ان کی گفتگو سے میں نے اخذ کیا کہ زیادہ تر خواتین نے میک اپ کرنا چھوڑ دیا ہے ‘ جب منہ ہی کسی کو دکھانے کے قابل نہ رہے تو میک اپ کا کیا فائدہ۔ میری کئی کمزوریاں ہیں جن میں سے آرام دہ کپڑے اور جوتے سر فہرست ہیں‘ یہ وباءشروع ہونے سے پہلے میں نے امیزون سے کچھ انڈروئےر منگوائے۔ پچھلے ہفتے یاد آیا تو کوریئر کو پیغام بھیجا‘ انہوں نے بتایا کہ آیا ہوا ہے لیکن کسٹم کلےرینس کیلئے رکا ہوا ہے۔ لیکن مجھے کوئی خوشی کا احساس نہ ہوا کہ ان دنوں میں صبح ہسپتال کے سکربز کپڑے پہن کر جاتا ہوں۔ ایک جوڑا آرام دہ جوتوں کا پہنتا ہوں اور باقی سارے جوڑے گرد سے اٹ گئے ہیں۔ دو دو دن تک شیو نہیں کیا ہوتا لیکن ماسک میں چہرہ چھپا ہوتا ہے۔ ہسپتال سے آکر کپڑے واشنگ مشین میں اور واک کے کپڑے پہن لیتا ہوں۔ انہی میں سوتا ہوں اور انہی میں واک یا ورزش کرتا ہوں‘کپڑوں کی الماری دیکھتا ہوں تو نت نئے کپڑوں پر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے گرد پڑ چکی ہے‘ میں جو ہفتے میں ایک دفعہ باڑہ مارکیٹ یا شاپنگ مال سے ضرور خریداری کرتا تھا‘ اب مہینوں نہیں جاتا اور زندگی آرام سے گزررہی ہے‘ ہاں ہمیں بھی معاشی بحران کا سامنا ہے‘ ہر دن بینک اکاﺅنٹ دیکھ کر چند ایک ضروری چیزیں اپنی فہرست سے نکال دیتا ہوں۔ لیکن پٹرول کا خرچ کم ہوگیا ہے‘ ڈرائیور سارا دن اپنے کمرے میں سوتے رہتے ہیں۔ جب یہ وباءشروع ہوئی تو ہمیں امید تھی کہ ایک دو ہفتوں میں سب کچھ نارمل ہوجائے گا۔

 پھر ایک دو ماہ کی امید ہوئی۔ لیکن اب پانچ چھ ماہ ہونے کو آرہے ہیں اور افق پر کوئی روشنی نظر نہیں آرہی۔ ابھی پچھلے دنوں امپیریل کالج لندن کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں یہ وباءکم از کم اگلے سال کے شروع سہ ماہی تک جاری رہے گی۔ پوری دنیا میں اس لاک ڈاﺅن کے افسوسناک اور بسا اوقات حیرت انگیز نتائج سامنے آرہے ہیں‘ ٹریفک کم ہونے سے ماحولیاتی صفائی شروع ہوئی۔ پہلی بار جالندھر کے لوگوں کو ماﺅنٹ ایورسٹ نظر آیا۔ پشاور کی فضا صاف ہوئی۔ ٹریفک کا شور کم ہوا۔ دفاتر بند ہوئے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ گھر سے بھی کام کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے تین ماہ میں‘مےںنے کم از کم پچاس کانفرنس زوم پر یا دوسرے ذریعوں سے آن لائن اٹینڈ کیں۔ جتنے اچھے اچھے ماہرین سے براہ راست سکرین پر ملاقات ہوئی شاےد پچھلے دس سالوں میں نہیں ہوئی تھی۔ اب زندگی گزارنے کیلئے ہمیں حکمت عملی بدلنا ہوگی۔ گوگل اور فیس بک نے اگلے سال تک تمام ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کردی ہے ہمارے ریستورانوں کو اب ٹیک اوے اور کھاناگھر پر پہنچانے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ سکولوں اور کالجوں نے آن لائن کلاسوں سے بچوں کو کب کا پڑھانا شروع کیا ہے‘ اور کمال کی بات یہ ہے کہ خان اکیڈمی کئی سالوں سے یہی کررہی ہے‘ خان اکیڈمی کوئی ایسی ویسی سائٹ نہیں ‘بل گیٹس کے بچے وہیں سے پڑتے ہیں‘ تو ہمارے بچے کیوں سکولوں میں پیسہ اور وقت ضائع کریں۔ نیویارک میں وباءسے بے تحاشا اموات ہونے کے بعد جن میں ہیلتھ کیئر کے ارکان بھی شامل ہیں‘ ان کو احساس ہوا کہ ستر فیصد مریضوں کو تو ہسپتال آنے کی ضرورت ہی نہیں‘ ہم نے ایک سال سے ایک اسی قسم کی ایپ پر کام شروع کیا تھا۔ ہمیں دفتر کی تنگی کا احساس ہواتو ہم نے بڑی جگہ تلاش کرنے کی کوشش شروع کی۔

اتنے میں لاک ڈاﺅن شرو ع ہوا اور تب سے ہم آن لائن کام کررہے ہیں۔ اگر ہمیں ویسے ہی دفاتر یا ملازمت کے مقاما ت پر جانے کی ضرورت نہ رہے تو کون شہر کے گنجان ترین علاقوں میںمہنگے گھروں میں رہے‘ کیوں ٹریفک میں گھنٹو ں پھنسا رہے‘ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم مضافات میں فطرت کے نزدیک رہیں‘ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں تھیں جن کی ہم کو ضرورت ہی نہیں تھی لیکن ہم خریدتے جاتے تھے‘ اسلئے اب حکومت کو بھی نئے انتظامات کرنے ہوں گے‘ جن میں سے سرِفہرست وائی فائی اور انٹرنےٹ کی سپلائی ہے۔ اسے ہر جگہ پہنچانے کی ضرورت ہوگی تاکہ رابطہ منقطع نہ ہو۔ جس طرح سی ڈی پلیئر کے آنے سے وی سی آر کی دکانیں ختم ہوئیں اور موبائل آنے سے دوسرے بہت سے کاروبار ختم ہوئے‘اب تمام کاروباری لوگوں کو دوبارہ سوچنا پڑے گا اور نت نئی اختراعات نکالنا ہوں گی‘مثال کے طور پر تاجر برادری کو گھر پر ڈےلیوری کے بارے سوچنا پڑے گا اور اس میں سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔ موبائل بینکنگ کے بارے بندوبست کرنا پڑے گا‘ شادی ہالوں کو شاےد کم لو گوں کو زیادہ کھلی جگہ میں کھلانا پڑے گا اور ان کو انٹرنیٹ اور آن لائن ویڈیو کانفرنسنگ کا بندوبست بھی کرنا پڑے گا تاکہ دوردراز کے رشتہ دار شادی میں آن لائن شریک ہوسکیں‘ڈریس ڈیزائنرز کو کپڑوں کی خوبصورتی کےساتھ ساتھ آرام کا خیال رکھنا پڑے گا۔ تو میرے عزیز ساتھیو اور وباءسے بچنے والے خوش قسمتو! جاگ جائیے۔ اب دنیا بدل گئی ہے۔ بی سی یعنی قبل از کورونا سے زمانہ چھلانگ لگا کر اے سی یعنی بعد از کرونا دور میں پہنچ چکا ہے۔ اب ہم اپنے پوتے پوتےوں کو کہانیاں سنائیں گے کہ ایک ایسا زمانہ بھی تھا جب ٹریفک کا رش ہوا کرتا تھا۔ بات بات پر لوگ ہاتھ پر ہاتھ مارتے تھے‘ رات کو محفلیں سجتی تھیں‘ مہمان آتے تھے اور گلے ملتے تھے۔ خواتین ہر وقت اپنے ہونٹ لال رکھتی تھیں۔ مرد روزانہ شیو کرتے تھے۔ لوگ ریستورانوں میں کھانا کھانے جاتے تھے‘ شادیوں اور جنازوں میں ہزاروں کا مجمع ہوا کرتا تھا۔ بوڑھے لوگ پرانی یاد میں ڈوب جاتے توجوان حیرت سے پوچھتے”یہ بھلا کیسابور زمانہ تھا؟“۔