تخلیق اورمددگار

ڈاکٹر یاسمین راشد ایک مقبول گائناکالوجسٹ ہیں۔ پرسوں کسی نے ان کا ایک واقعہ لکھا تھا کہ جب وہ پروفیسر تھیں تو رات گئے ان کو ایمرجنسی میں فون آیا کہ مریض بہت نازک ہے، بہت سا خون ضائع ہوچکا ہے لیکن ان کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو ہے۔ یاسمین فورا”اپنے دو بیٹوں کو ہسپتال لے کر آئی جن کا بلڈ گروپ یہی تھا۔ نہ صرف اپنے بیٹوں سے خون دلوایا بلکہ مریض کا آپریشن بھی خود ہی کیا اور اسکے بعد گھر روانہ ہوئیں۔ میری بیگم بھی گائناکالوجسٹ ہیں اور اسلئے مجھے ان کی بڑی حد تک مشکل معمولات کے ساتھ نبھانا پڑتا ہے۔ میں نے پروفیسر کی حیثیت سے رات کے دو دو بجے ہسپتال کی پارکنگ میں گاڑی میں گھنٹوں اپنی بیگم کا انتظار کیا ہے جو ایمرجنسی میں کسی مریض کے آپریشن کیلئے آتی تھیں۔ سوشل میڈیا پر اور کبھی کبھار عام میڈیا پر بھی ڈاکٹروں کو کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا اور خصوصاً گائناکالوجسٹ پر تو یہ الزام عام ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے آپریشن کے ذریعے سے ڈیلیوری اسلئے کرتی ہیں تاکہ ان کو پیسے زیادہ ملیں۔ مجھے یقین ہے کہ جیسی ہماری قوم ہے ویسے ہی ڈاکٹر بھی ہوں گے لیکن جس حالت میں گائناکالوجسٹ کام کرتی ہیں، وہاں آپریشن کے ذریعے ڈیلیوری خود ان کیلئے ایک نہایت پریشان کن صورت حال ہوتی ہے۔ وہاں اتنے خطرے ہوتے ہیں کہ نہ صرف زچہ وبچہ بلکہ ڈاکٹر اور اسکے اسسٹنٹوں کی بھی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔ ہماری کئی مشہور گائناکالوجسٹ مریض سے انفیکشن لے کر موت کے منہ میں چلی گئی ہیں۔

 اس لئے ان کی اکثریت کبھی بھی مریض کو بلا ضرورت سی سیکشن کا نہیں کہہ سکتیں۔ اگر آپ دولت کی حرص بھی شامل کرلیں تو یہ ایک نقصان کا سودا ہے اور وہ اس طرح کہ سی سیکشن کے ساتھ بچوں کی پیدائش محدود ہوجاتی ہے۔ کوئی بھی گائناکالوجسٹ تین سے زائد سی سیکشن پر حمل کا مشورہ نہیں دے سکتیں۔ یوں اپنی ہی کمائی پر لات مارنے کے مترادف ہے۔ خواتین کی بیماریاں مردوں سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں اور پیدائش سے لے کر سنِ یاس یا مینو پاز تک ان کو بے شمار ٍخطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے ان کو مقابلہ کرنے کی صلاحیت مرد سے زیادہ عطاکی ہے۔ ویسے تو تمام انسان ایک ہی جیسا جسم رکھتے ہیں لیکن کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو خواتین تک محدود ہوتی ہیں۔ بلکہ صرف بیماریاں ہی نہیں، عام زندگی کا چال چلن بھی مختلف ہے۔ مثال کے طور پرلڑکی کے جوان ہوتے ہی ماہواری اور دوسری معمولات مردوں سے یک دم مختلف ہوجاتی ہیں۔ حمل ایک بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نہ صرف بچے کو بلکہ ماں کو بھی بہت سے خدشات ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک یا دونوں کو موت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سن یاس یعنی ماہواری بند ہونے کے بعد عورت کی زندگی ایک بار پھر کروٹ لے کر بدل جاتی ہے اور ہارمونز کے اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے کبھی ان کو بلڈپریشر، کبھی ڈیپریشن اور کبھی بے تحاشا خون بہنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ خواتین میں چھاتی اور بچہ دانی کا کینسر بھی مردوں سے قطعا”مختلف ہوتا ہے۔ ان تمام مواقع پر (سوائے چھاتی کے کینسر کے) لڑکیوں اور خواتین کی مدد کو گائناکالوجسٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔

 یاد رہے کہ ہر لیڈی ڈاکٹر گائناکالوجسٹ نہیں ہوتی۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد چند ڈاکٹر چھوٹا ڈپلوما اور چند بڑی سپیشلائزیشن کرکے گائناکالوجسٹ بن جاتے ہیں۔ پہلے زمانے میں مرد خال خال ہی اس شعبے میں آتے تھے لیکن اب ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ سارے سپیشیلسٹ ڈاکٹرز خواتین کی مدد کیلئے ہیں۔ یاد رہے کہ جب لڑکیوں کو ماہواری شروع ہوتی ہے تو اسی فیصد لڑکیوں کو ان میں کسی نہ کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے بے قاعدگی یا شدید درد۔ بعض نوجوان خواتین کو ماہواری سے قبل بہت سر درد اور ڈیپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں وہ چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔خواتین کیلئے شادی کے بعد بچے کی پیدائش ایک اور امتحان ہوتا ہے۔ شادی کے بعد عام اور نارمل جوڑوں میں سے پندرہ فیصد جوڑوں کو بے اولادی سے نمٹنا پڑتا ہے جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اسکا علاج نہ صرف لمبا اور صبر آزما ہوتا ہے بلکہ مہنگا بھی ہوتا ہے۔ یہ گائناکالوجسٹ کا میدان ہے جس میں دل بڑا کرنا پڑتا ہے اور سالوں کے علاج کیلئے تیار رھنا پڑتا ہے۔ حمل ٹھہرنے کے بعد شروع کے مہینوں میں تو دل خراب ہونے، اُلٹیاں کرنے، کمزوری، قبض اور درد کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ اس دور میں بے تحاشا ادویات بغیر گائناکالوجسٹ کی ہدایت کے استعمال کرنا بھی بچے کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حمل کے نو ماہ میں ہر ماہ سے لے کر ہر دو ہفتے بعد معائنہ کرنا پڑتا ہے۔ اس معائنے میں الٹرا ساونڈ، خون اور پیشاب کے ٹسٹ کرنے پڑتے ہیں۔ حاملہ کو بدہضمی، قبض، درد، پیشاب کا جلنا، پاوں کی سوجن اور دوسری کئی تکلیفات لاحق ہوسکتی ہیں۔ اس دوران غیر متعلقہ ڈاکٹر سے معائنہ کروانے سے حاملہ اور بچے دونوں کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ چونکہ ایک نئی جان کی تخلیق کا معاملہ ہوتا ہے اس لئے اسے معمولی نہیں لینا چاہئے۔ ہر وقت حاملہ اور اسکی ڈاکٹر ہر قسم کے خطرے کیلئے تیار رہتے ہیں۔

پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے ایک سو چالیس خواتین حمل میں جان ہار جاتی ہیں۔ ہر ہزار ڈیلیوریز میں سے تقریبا”ستر بچے زندگی کی جنگ ہار دیتے ہیں۔حمل کی عمر سے نکلنے کے بعد بھی خواتین کی صحت کو دوچار خطرے ختم نہیں ہوتے۔ تقریبا”پندرہ سے بیس فیصد خواتین میں بچہ دانی اور بیضہ دانی (یوٹرس اور اووری) کا کینسر لاحق ہوتا ہے۔ مناسب وقفے سے معائنہ نہ کرنے کی وجہ سے ان میں سے ستر فیصد کی تشخیص ایسے وقت پر ہوتی ہے جب علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس تمہید سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ خواتین کی امراض کے ماہرین کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضرورت نہ صرف آبادی کے نصف حصے کیلئے ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں یعنی نوزائدہ بچوں کی بہبود کیلئے بھی لازمی ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی عزت اور حوصلہ افزائی میں کمی نہ آئے۔ یہ ہماری آنے والی نسلوں کی محافظ ہیں۔ ان کے معمولات ان کو اپنے خاندان سے بیگانہ کردیتی ہیں۔ ان کے بچے دوسرے لوگ پالتے ہیں۔ ان کی راتیں جاگ کر گزرتی ہیں۔ ان کے دن تھکاوٹ سے بھرپور ہوتے ہیں۔

 ان کو اپنے حلیے پر توجہ دینے کا وقت نہیں ہوتا۔ ان کے اوورآل کی جیبیں مختلف اوزار سے بھری ہوتی ہیں۔ تھکاوٹ ان کے چہرے سے ہروقت عیاں ہوتی ہے۔ ایسے میں ان پر الزام لگانا کہ وہ محض پیسوں کیلئے سی سیکشن کررہی ہیں، ظلم ہے۔ ویسے سوشل میڈیا پر تو الزام لگایا جاتا ہے کہ جو بھی حاملہ خاتون کسی گائناکالوجسٹ کے پاس جاتی ہیں، وہ سی سیکشن ہی کرکے ڈیلیوری کرتی ہیں۔ تاہم میرے پاس 1990 سے پچھلے برس تک کے شماریات موجود ہیں۔ ان کے مطابق سو میں سے پندرہ خواتین کی ڈیلیوری سی سیکشن سے ہوتی ہے۔ یہ حد شہروں میں زیادہ ہے اور وہ اسلئے کہ وہاں خواتین باقاعدہ معائنہ کرواتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر فوری طور پر ہسپتال پہنچ سکتی ہیں۔ جبکہ دیہات میں سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے سی سیکشن کم ہوتے ہیں لیکن وہاں زچہ یا بچہ کے مرنے کے احتمالات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ سی سیکشن کے ساتھ ڈیلیوری میں حاملہ کے رشتہ داروں کو زیادہ دیر تک دیکھ بھال کرنی پڑی ہے، خرچہ بھی آتا ہے، اس لئے شوہر اور سسرال کو غصہ آتا ہی ہے ورنہ حاملہ خاتون نوماہ جس کرب سے گزری ہوتی ہے، وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔