کورونااورتعلیم

گزشتہ سال نیپال کے ایک ہسپتال اور تعلیمی ادارے سے ورکشاپ اور ممتحن کے طور پر دعوت آئی تھی۔ میں پہلے بھی جاتا رہا تھا اس لئے خوشی خوشی وہاں گیا۔ ڈاکٹر شنکر رائے نے ایک چھوٹا سا ہسپتال بنایا ہوا ہے لیکن اس عالمی معیار کا ہے کہ ہر سال امریکہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور یورپ سے کئی ڈاکٹر سیکھنے کیلئے آتے ہیں‘ نہ صرف یہ بلکہ کئی بڑے بڑے پروفیسر ہفتوں کیلئے ڈیرا ڈال دیتے ہیں اور نہ صرف اپنے ساتھ نت نئی مشینیں لا کر چھوڑ دیتے ہیں بلکہ ڈسپوزبل بھی تحفے کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف اس جگہ کی مسلمہ حیثیت کا اعتراف ہے بلکہ شنکر رائے کی بے لوث خدمت اور دیانتداری پر بھی اعتماد ہے‘ میں نے وہاں کوئی ہفتہ دس دن گزارے‘ اس دوران وہاں ایک جاپانی نژاد امریکی سے ملاقات ہوئی جو ایک بہت ہی تجربہ کار ہینڈ تھراپسٹ تھےں۔ جینا امریکہ سے ایک سال کی چھٹی لے کر آئی ہوئی تھیں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ہسپتال ہی میں رہ رہی تھیں۔ اور روزانہ صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک نہ صرف مریضوں کی مدد کرتی تھیں بلکہ جونیئر ڈاکٹروں اور نرسوں کو سکھا بھی رہی تھیں۔ وہ خود اپنے امریکی ہسپتال میں پروفیسر تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ایک سال کی چھٹی کیسے کرلیتی ہیں۔ انہوں نے مسکرا کر کہا کہ میں نے سباتی سال (Sabbatical year) منایا ہے سباتی دراصل یہودی اصطلاح سبت سے نکلا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ہفتے کے دن کی چھٹی فرض کی گئی تھی جس میں وہ نہ شکار کرسکتے تھے اور نہ آگ پر کوئی کھانا پکا سکتے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کسی پر یہ فرض نہیں ہوتا کہ وہ کوئی کورس اپنے وقت پر ختم کرے یا کسی قسم کی جاب میں مسلسل کام کرے۔ کئی طلبہ اپنی یونیورسٹی کے سبق کے دوران ایک سال دو سال کی چھٹی لے لیتے ہیں‘ اس کو سباتی سال کہتے ہیں۔ اس میں وہ کبھی تو اپناکوئی شوق پورا کرتے ہیں۔

 کوئی نیا ہنر سیکھ لیتے ہیں یا کسی دوسرے ملک جاکر کوئی نیا تجربہ حاصل کرتے ہیں‘اسی لئے وہاں سکول و کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے عمر کی شرط نہیں ہوتی۔ میرے ایک دوست کے والد انجینئر ہیں۔ چوہتر سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تو جاکر ٹورنٹو یونیورسٹی میں سوشل سائنسز میں داخلہ لے لیا۔ میرے کئی دوست احباب بچوں کے سکولوں اور کالجوں کی چھٹی سے پریشان ہیں‘ طلبہ اور طالبات شدید ڈپریشن میں ہیں‘ چند والدین جو ابھی بچوں کو سکول میں داخلے کے چکر میں تھے‘ ابھی وبا کی وجہ سے تمام سکول بند پڑے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیاں تک بند پڑی ہوئی ہیں اور طلبہ نہیں جانتے کہ اس دوران کیا کریں۔ اس موقع پر مجھے سباتی سال یاد آگیا۔ یہی موقع ہے کہ ہم سب اس وبائی سال کو سباتی سال قرار دیںاور معمول کی سرگرمیاں معطل کرکے اپنے دیرینہ مشاغل کو وقت دیں۔ طلبہ اس لاک ڈاﺅن کے دوران نت نئے ہنر سیکھ لیں۔ میری بیگم چند ماہ سے کینیڈا میں پھنس گئی تھیں۔ میں ویسے تو کمپیوٹر کے تمام کام خود ہی کرلیتا ہوں لیکن ایم ایس ایکسل کو کبھی اچھی طرح نہیں سیکھ سکا۔ ادھر بیگم نے اس دوران آن لائن کلاسیں جوائن کرکے ایکسل میں مہارت حاصل کرلی اور میں اب ان کی منتیں کررہا ہوں کہ مجھے بھی سکھائےں اسی طرح انہوں نے عمر بھر کی خواہش یعنی پینٹنگ کو پس پشت ڈالا ہوا تھا‘اس میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ اس دوران میں نے تقریباًبیس پچیس کانفرنسیں زووم پر اٹینڈ کرلی ہیں۔ لگ بھگ سو کتابیں پڑھ چکا ہوں۔اگرچہ میری ساری لائبریری میرے آئی پیڈ میں سمائی ہوئی ہے اور اب میں کاغذ کی رواےتی کتب چھوڑ چکا تھا‘ اب پھر سے بغل میں دبانی شروع کردی ہیں۔ اسی طرح مختلف طلبہ نت نئی جہتیں دریافت کرسکتے ہیں۔ سائنس کے طلبہ کیلئے شماریات یا سٹیٹسٹکس بہت ضروری علم ہے جو وہ اس وبا کے دنوں میں سیکھ سکتے ہیں۔ ہر خاص وعام اس دوران کمپیوٹر پر دس انگلیوں سے تیز ٹائپ کرنا سیکھ سکتا ہے۔مختلف مسالک کے درمیان اختلافات پر ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے قرآ ن کی عربی سیکھ سکتے ہیں‘ کئی ویب سائٹس ہیں جو اس کام میں آپ کی مدد کرسکتی ہیں۔جو مذہب سے رجوع کرنا چاہتے ہیں‘ خود ہی امام بن جائیں۔

 گھر کے بچوں اور خواتین کو لے کر جماعت کر لیا کریں اور جماعت کے بعد ان کو ایک آےت دو کا ترجمہ کروالیا کریں۔ وہ والدین جو بچوں کو سکول میں داخل کرنے والے تھے۔ لمبا سانس کھینچ کر صبر سے کام لیں۔ بچے اب موبائل فون‘ ٹی وی اور آئی پیڈ کا نشہ لئے ہوئے ہیں۔ اس نشہ کو آپ باآسانی تعلیم و تربیت میں بدل سکتے ہیں‘خان اکیڈمی ایک نہاےت اعلیٰ درجے کی بین الاقوامی تعلیمی ادارے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس سے بل گیٹس کے بچے تک مستفید ہورہے ہیں‘اپنے بچوں کی فری رجسٹریشن کروائیے۔ اپنا نام بھی والدین کے طور پر رجسٹر کروالیں تو بچے کی پراگریس آپ کو بھی معلوم ہوتی رہے گی‘بہت چھوٹے بچوں کیلئے ماین کرافٹ گیم کے تعلیمی ورژن کو انسٹال کرلیں۔ تین چار سال کے بچے کو سکول یا نرسری میں داخل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پانچ چھ سال تک ان کو گھر ہی پر تھوڑا بہت لکھایا پڑھایا جاسکتا ہے لیکن زیادہ ضروری ان کی تربیت ہے۔ بھلا اسی نوے سال کی عمر میں ایک سال کہاں فرق لاسکتا ہے؟ یہ عمر بھر کا بمشکل ایک فیصد سے تھوڑا زائد حصہ ہے تو اس سال کے ضیاع کی فکر نہ کریں بلکہ ان کے سامنے جھوٹ نہ بولیں تاکہ ان کو سچ بولنے کی عادت پڑ جائے۔ گھر میں ہر شخص اپنے اپنے برتن خود دھو کر یا بستر کو ٹھیک کرکے اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالے۔ یہ موقع ہے غصے پر قابو پانے کا۔ہر شخص ا±بلنے کو ہے اور گھر میں تلخیاں بڑھنے کی بے شمار وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اپنی برداشت کو ہاتھ سے جانے نہ دیں تو بچوں پر اچھا اثر پڑے گا۔ یہ ایک سال سمجھ لیں ہماری زندگی میں سے منفی ہوگیا ہے لیکن اسے رائےگاں نہ جانے دیں۔ یہ سباتی سال سمجھ لیں۔