قوم اورصفائی

یہ80ء کی بات ہے کہ ایک جاپانی انجینئر کے والد کو گھٹنوں میں تکلیف کے باعث ٹوائلٹ استعمال کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ انجینئر نے اسکا حل بڑی محنت کے بعد یہ نکالا کہ ٹوائلٹ کے اندر سے ایک پائپ نکال کر ایسے سیٹ کیا کہ بٹن دبانے سے پانی کی ایک خود کار دھار نکل کر استنجا کرلیتی ہے۔ اس دھار کے رخ اور زاوئے پر بہت تحقیق ہوئی اور اسکے بعد اسے استعمال میں لایا گیا۔ اسے عام انگریزی میں بیڈیٹ (Bidet)کہا جاتا ہے۔ اس انجینئر کے والد نے جب اسکی تعریف کی تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جاپانی صفائی کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور اس لئے وہ ٹوائلٹ پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ استنجا کی دھار والی بیڈیٹ کی ابتدا اگرچہ فرانس میں ہوئی لیکن وہ ٹوائلٹ سے الگ ایک علیٰحدہ سنک کی صورت میں ہوتی تھی اور اُس میں پاﺅںبھی دھوئے جاتے تھے۔ تاہم ٹوائلٹ کے اندر یہ دھار سب سے پہلے جاپان کی ٹوٹو (ToTo)کمپنی نے لگائی اور اب تک اسکے دنیا بھر میں لاکھوں ٹوائلٹ سیٹ بِک چکے ہیں۔ سن اسّی سے اب تک اس میں بے شمار ماڈل آچکے ہیں جن میں طرح طرح کی اختراعات ہیں۔ گرم اور ٹھنڈا پانی، خشک کرنے کیلئے ہوا کی پھوار، بدبو ختم کرنے کیلئے سپرے، ٹوائلٹ کے قریب جانے پر ڈھکن کے خودبخود کھلنے اور سردی میں سیٹ گرم رکھنے تک کا بندوبست ہے۔ میں نے پچھلے سال اپنے باتھ رومز دوبارہ سے بنوائے تو مجھے پورے پاکستان میں کہیں اس بیڈےٹ کا سراغ نہیں ملا۔ خیر میں نے چین سے منگوالئے۔ (اب تو دراز پر بھی دستیاب ہیں)۔ یہ بیڈےٹ مسلم شاور کی طرح کا ہے لیکن اس میں اسے الگ نہیں لگایا جاتا اور آپ کے ہاتھ فارغ ہوتے ہیں۔

 یاد رہے کہ میں صرف انگلش کموڈ کی بات کررہا ہوں تاہم اگر کوشش کی جائے تو مشرقی کموڈ میں بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ تاہم ہمارے بزرگ اب زیادہ عمر تک پہنچ رہے ہیں جب ان کو مختلف امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان میں گھٹنوں اور دوسرے جوڑوں کا درد بہت عام ہے۔ یہ بزرگ مشرقی ٹوائلٹ پر نہیں بیٹھ سکتے۔ جتنے بزرگ آپ مساجد میں کرسیوں پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں، ان کی اکثریت کیلئے یہ ویسٹرن ٹوائلٹ ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس لئے گھروں میں اسکا رواج عام کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ بعض لوگ اسے وضو میں پلیدگی کا باعث سمجھتے ہیں لیکن ظاہر ہے فارغ ہونے کے بعد استنجا سے صفائی ہوجاتی ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ وسواس کی ضرورت نہیں۔ بہت سے نوجوان اس وجہ سے دونوں پاﺅں سیٹ کے اوپر رکھ کر فراغت پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف سیٹ گندی ہوجاتی ہے بلکہ اس میں گرنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ میرے ایک دوست لاہور میں ایک ہوٹل میں اسی طرح بیٹھ کر اپنے کولہے کی ہڈی تڑوابیٹھے تھے۔ کسی قوم کی صفائی کا معیار دیکھنا ہو تو اسکے باتھ رومز دیکھ لیں۔ یہ حقیقت ہمارے ملک میں اپنے پورے جوبن سے چھائی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے دفاتر میں باتھ رومز کی صفائی ناپید ہوتی ہے۔ بہت سی جگہوں پر ہر باتھ روم کیلئے ایک الگ سویپر کا اہتمام بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہر جانے والا صفائی بارے اپنا فرض نہیں نبھاہتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم باتھ روم استعمال کرنے کے بعد اسے ایسے ہی چھوڑیں جس طرح ہم خود اسے استعمال کرنے سے قبل پسند کرتے ہیں۔ باتھ رومز میں بسا اوقات اتنا پانی پھیلا ہوتا ہے کہ لگتاہے کسی نے وضو نہیں بلکہ غسل کیا ہو۔ اور اس رواج کا بظاہر تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ میں نے بہت سے ایسے ڈاکٹروں کو اس قباحت میں مبتلا پایا ہے جو انگلینڈ اور امریکہ سے تربیت حاصل کرکے آئے ہیں۔

 اگرچہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ صرف امیر اور اوپر کی کلاس والوں کو ویسٹرن ٹوائلٹ استعمال کرنے سے آگاہی کافی ہے لیکن ہمارے متوسط طبقے عمرے اور حج کیلئے تو ضرور ہوائی سفر کرتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں باتھ رومز میں یہی ٹوائلٹ ہوتے ہیں اور وہ چھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ اس پر تمام مسافر نہ صرف مکمل وضو کرنا چاہتے ہیں بلکہ عمرے کیلئے احرام بھی باندھنا چاہتے ہیں۔ اس افراتفری اور ویسٹرن ٹوائلٹ سے ناواقفیت سے نہ صرف باتھ روم کا سارا پانی ضائع ہوجاتا ہے بلکہ کئی بار میں نے پورے جہاز کو پانی سے لت پت دیکھا ہے۔ ائر ہوسٹس بیچاریاں تولیوں اور ٹشوپیپر جمع کرکرکے باتھ روم کے باہر بند لگانے کی کوشش میں پاگل ہوجاتی ہیں لیکن ہمارے مسلمان اپنا آدھا ایمان ضائع کرنے پر لگے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے کیا جاتا ہے کہ جدہ میں اُتر کر سیدھا خانہ کعبہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا جائے حالانکہ مسجد عائشہ پہنچ کر بھی احرام پہنا جاسکتا ہے۔ اور اس کا فائدہ یہ ہے تھکاوٹ سے چور حالت میں عمرہ بہت تکلیف دے سکتا ہے جبکہ ہمارے اکثر عازمین عمر کے لحاظ سے بُزرگ ہوتے ہیں۔

 اس لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ جدہ میں اُتر کر مکہ میں اپنے ہوٹل میں پہنچ کر آرام کیا جائے اور صبح فریش اُٹھ کر مسجد عائشہ پہنچیں۔ وہاں احرام باندھیں اور عمرہ کرلیں۔ ویسٹرن ٹوائلٹ کی ضرورت ہر اس گھر میں ہوتی ہے جہاں کوئی بھی معمر شخص ہو۔ گھٹنوں کے درد ہوں یا کولہے کے جوڑوں کا درد۔ مٹاپا ہو یا دل کی بیماری۔ اکڑوں بیٹھنا اُن کیلئے کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لئے اپنے عمررسیدہ والدین کیلئے ایسے ٹوائلٹ کا اہتمام ضروری ہے۔ ایک اور اہم جسمانی عارضہ جو عمر کےساتھ بڑھتا جاتا ہے وہ چھوٹے پیشاب کے بعد قطرے کے گرنے کا ہوتا ہے۔ اور اسی وجہ سے ہمیں مساجد کے باہر کچھ ناقابل برداشت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دراصل مردانہ پیشاب کی نالی لمبی ہوتی ہے۔ مثانے سے زور کرنے پر باقی پیشاب تو نکل جاتا ہے۔ تاہم پیشاب کی نالی کے گرد عضلات چونکہ عمر کےساتھ کمزور پڑجاتے ہیں تو وہ پیشاب کو نالی سے پورا خالی نہیں کرسکتے۔ اسلئے اگر ایک انگلی سے پیچھے سے آگے تک اسے نچوڑا جائے تو مجال ہے کہ اُٹھنے کے بعد اک قطرہ بھی گرے۔