حقیقت ناقابل یقین اور توقعات سے کہیں گنا زیادہ سنگین ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد میں ہر دن سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں کورونا کا پہلا مریض چھبیس فروری کے روز سامنے آیا تھا اور چھبیس فروری سے تین جون کے دوران مریضوں کی تعدد 80 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے! ایک سے 100 تک مریضوں کی تعداد چھبیس فروری سے سولہ مارچ کے درمیانی عرصے میں سامنے آئی لیکن اِس کے بعد یومیہ درجنوں افراد متاثر ہونے لگے۔ 100سے 1000 کورونا متاثرین 25 مارچ‘ 1000سے 5000 گیارہ اپریل‘ پانچ ہزار سے 10 ہزار بائیس اپریل‘ دس ہزار سے بیس ہزار تین مئی‘ بیس ہزار سے تیس ہزار صرف سات دنوں میں یعنی دس مئی تک‘ تیس سے چالیس ہزار سترہ مئی‘ چالیس سے پچاس ہزار بائیس مئی جبکہ پچاس سے 80 ہزار مریض 3 جون تک سامنے آ چکے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ کورونا پھیل رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے وہ خاطرخواہ سخت ردعمل دیکھنے میں نہیں آ رہا‘ جو متعلقہ شعبے کے ماہرین تجویز کر رہے ہیں‘ اندیشہ ہے کہ سماجی دوری اختیار کرنے کی بجائے ہر طرح کی چھوٹ دینے سے صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ توجہ طلب ہے کہ جون کے آغاز تک جبکہ سماجی سرگرمیوں میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے لیکن سوائے تعلیمی اداروں کے دیگر سبھی اجتماعی معمولات بحال ہو چکے ہیں!کورونا وائرس سے متاثرہ 80 ہزار مریض اسلئے غیرمعمولی محسوس نہیں ہو رہے کیونکہ اس پراسرار وبا سے پاکستان میں ہوئی 1658 ہلاکتیں بظاہر اور نسبتاً کم ہیں لیکن اگر مریضوں کی تعداد میں یونہی اضافہ جاری رہتا ہے اور علاج معالجے کی سہولیات پر دباو¿ بڑھنے کےساتھ یہ دباو¿ برقرار بھی رہتا ہے۔
تو مرض کی شدت کے باوجود بھی علاج کی سہولت ہر مریض کےلئے دستیاب نہیں ہوگی‘معالجین پہلے ہی متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں اپنی تشویش اور قومی حکمت عملی کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ لائق توجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے اب ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کی بڑی تعداد بھی کورونا متاثرین میں شامل ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حالات کی اصلاح کی بجائے پاکستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اب جو کچھ بھی کرنا ہے یا ہونا ہے وہ کورونا وائرس ہی کے ہاتھ میں ہے‘ جس کے خلاف پاکستان اپنی جنگ میں بڑی حد تک ہار چکا ہے!کورونا سے لڑنے کےلئے معالجین کو اپنی حفاظت کےلئے سازوسامان اور ضروریات کی فراہمی نہیں ہو رہی‘ادویات کی کمی سے متعلق شکایات صرف خیبر پختونخوا ہی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور کورونا وبا کا متاثرہ ہر مریض اتنا خوش قسمت بھی نہیں ہوتا کہ کسی سرکاری ہسپتال سے اس کا مفت کورونا ٹیسٹ ہو سکے حکومت کا یہ نقطہ نظر اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ سماجی و کاروباری سرگرمیوں کو کتنے عرصے تک معطل رکھی جا سکتی ہیں اور اگرچہ لاک ڈاو¿ن کورونا وائرس پھیلنے کو روکنے کا مو¿ثر ذریعہ ہے کہ لاک ڈاو¿ن کا احترام نہ ہونے کی وجہ سے یہ عمل غیرمو¿ثر ہو گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے نرمی اور بعدازاں اسے تقریباً ختم ہی کر دیا گیا ہے اور اس تبدیل شدہ حکومتی حکمت عملی کی وجہ سے عام آدمی زیادہ الجھن کا شکار ہے کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ اگر کورونا وبا خطرہ ہے تو لاک ڈاو¿ن میں اس قدر نرمی کیوں کی گئی ہے اور اگر خطرہ نہیں تو درس و تدریس کا عمل کیوں معطل ہے؟
دنیا حیرت کی نظر سے پاکستان کو جبکہ پاکستان التجائی نظروں سے دنیا کی طرف دیکھ رہا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ دنیا کے ان 10 سرفہرست ممالک میں پاکستان شامل ہو چکا ہے جہاں کورونا وبا پھیلنے کی شرح غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے اور یہ بات حکومتی سطح پر فیصلہ سازوں کےلئے انتہائی سنجیدہ و تشویش کا ایک باعث ہونی چاہئے۔ کل کیسا ہوگا یہ بات کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن کل کیا ہونےوالا ہے‘ اس بارے میں اعدادوشمار سے اندازہ لگانا مشکل نہیں! پاکستان کے فیصلہ ساز شاید اس امید پر مہلت دے رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا دیکھتے ہی دیکھتے ازخود ختم ہو جائے گی اور یہی وہ خام خیالی ہے‘ جس کی وجہ سے مدد و رہنمائی‘ شعور و خواندگی اور احتیاط و تدبیر سے کام نہیں لیا جا رہا۔ عام آدمی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اگر اختیارات اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے رحم و کرم کا مظاہرہ کیا جائے تو اس کے زیادہ بہتر اور قابل برداشت نتائج برآمد ہوں گے۔